اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سر و پا ہیں
کہ ہے سر پنجۂ مژگانِ آہو پشت خار اپنا

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
508
ہم سے کھل جاؤ بوَقتِ مے پرستی ایک دن
ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عُذرِ مستی ایک دن
غرّۂ اوجِ بِنائے عالمِ امکاں نہ ہو
اِس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
1220
تغافل دوست ہوں میرا دماغِ عجز عالی ہے
اگر پہلو تہی کیجے تو جا میری بھی خالی ہے
رہا آباد عالم اہلِ ہمت کے نہ ہونے سے
بھرے ہیں جس قدر جام و سبو ، مے خانہ خالی ہے

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
463
پھر اس انداز سے بہار آئی
کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی
دیکھو اے ساکنانِ خطۂ خاک
اس کو کہتے ہیں عالم آرائی
کہ زمیں ہو گئی ہے سر تا سر
رو کشِ سطحِ چرخِ مینائی

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
688
غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
ہم رہیں یوں تشنہ لب پیغام کے
خستگی کا تم سے کیا شکوہ کہ یہ
ہتھکنڈے ہیں چرخِ نیلی فام کے
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمھارے نام کے

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
1073
وہ دل کا برا نہ بے وفا تھا
بس مجھ سے یونہی بچھڑ گیا تھا
لفظوں کی حدوں سے ماوراء تھا
اب کس سے کہوں وہ شخص کیا تھا
وہ میری غزل کا آئینہ تھا
ہر شخص یہ بات جانتا تھا

مفعول مفاعِلن فَعُولن


1717
جب بھی دل کھول کے روئے ہوں گے
لوگ آرام سے سوئے ہوں گے
بعض اوقات بہ مجبورئ دل
ہم تو کیا آپ بھی روئے ہوں گے
صبح تک دستِ صبا نے کیا کیا
پھول کانٹوں میں پِروئے ہوں گے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


1751
مہرباں ہو کے بلا لو مجھے، چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں‌ کہ پھر آ بھی نہ سکوں
ضعف میں طعنۂ اغیار کا شکوہ کیا ہے
بات کچھ سَر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستمگر، ورنہ
کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
574
عہدے سے مدِح‌ ناز کے باہر نہ آ سکا
گر اک ادا ہو تو اُسے اپنی قضا کہوں
حلقے ہیں چشم ہائے کشادہ بسوے دل
ہر تارِ زلف کو نگہِ سُرمہ سا کہوں
میں، اور صد ہزار نوائے جگر خراش
تو، اور ایک وہ نہ شنیدن کہ کیا کہوں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


407
آبرو کیا خاک اُس گُل کی۔ کہ گلشن میں نہیں
ہے گریباں ننگِ پیراہن جو دامن میں نہیں
ضعف سے اے گریہ کچھ باقی مرے تن میں نہیں
رنگ ہو کر اڑ گیا، جو خوں کہ دامن میں نہیں
ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاہِ آفتاب
ذرّے اُس کے گھر کی دیواروں کے روزن میں نہیں

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
349
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
آج ہم اپنی پریشانئ خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھئے کیا کہتے ہیں
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انہیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
855
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
فرصتِ کار و بارِ شوق کسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں
دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خطّ و خال کہاں

فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
901
لوں وام بختِ خفتہ سے یک خوابِ خوش ولے
غالبؔ یہ خوف ہے کہ کہاں سے ادا کروں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
352
از آں جا کہ حسرت کشِ یار ہیں ہم
رقیبِ تمنائے دیدار ہیں ہم
رسیدن گلِ باغ واماندگی ہے
عبث محفل آرائے رفتار ہیں ہم
تماشائے گلشن تماشائے چیدن
بہار آفرینا! گنہ گار ہیں ہم

فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن


1878
مجھ کو دیارِ غیر میں مارا، وطن سے دور
رکھ لی مرے خدا نے مری بےکسی کی شرم
وہ حلقہ ہائے زلف، کمیں میں ہیں اے خدا
رکھ لیجو میرے دعویِ وارستگی کی شرم

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
714
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمھیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
نہ شعلے میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخِ تند خو کیا ہے
یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوفِ بد آموزیٔ عدو کیا ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
4597
شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
یہ بھی مت کہہ کہ جو کہیے تو گلا ہوتا ہے
پر ہوں میں شکوے سے یوں، راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے
گو سمجھتا نہیں پر حسن تلافی دیکھو
شکوۂ جور سے سر گرمِ جفا ہوتا ہے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


876
عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے
کہ اپنے سائے سے سر پاؤں سے ہے دو قدم آگے
قضا نے تھا مجھے چاہا خرابِ بادۂ الفت
فقط خراب لکھا، بس نہ چل سکا قلم آگے
غمِ زمانہ نے جھاڑی نشاطِ عشق کی مستی
وگرنہ ہم بھی اٹھاتے تھے لذتِ الم آگے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلاتن


1971
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی
امتحاں اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی
خار خارِ المِ حسرتِ دیدار تو ہے
شوق گل چینِ گلستانِ تسلّی نہ سہی
مے پرستاں خمِ مے منہ سے لگائے ہی بنے
ایک دن گر نہ ہوا بزم میں ساقی نہ سہی

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
787
جو مثلِ دوست، عدو کو بھی سرفراز کرے​
اُس آدمی کی خدا زندگی دراز کرے​
وہ کج نہاد ہے آدم کا ناخلف فرزند​
میانِ کافر و مومن جو امتیاز کرے​

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
464