اے مرتضیٰ، مدینۂ علمِ خدا کے باب!
اسرارِ حق ہیں، تیری نگاہوں پہ بے نقاب
ہے تیری چشم فیض سے اسلام کامیاب
ہر سانس ہے مکارم اخلاق کا شباب
نقشِ سجود میں، وہ ترے سوز و ساز ہے
فرشِ حرم کو جس کی تجلی پہ ناز ہے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
409
اشعار کو زر تار قبا دیتا ہوں
افکار کو آہنگ بنا دیتا ہوں
الفاظ کو بخشتا ہوں شکلِ اصنام
آواز کو آنکھوں سے دکھا دیتا ہوں

0
275
زَردَار کا خَنّاس نہیں جاتا ہے
ہر آن کا وَسواس نہیں جاتا ہے
ہوتا ہے جو شدّتِ ہَوَس پر مَبنی
تا مَرگ وہ افلاس نہیں جاتا ہے

0
270
انجام کے آغاز کو دیکھا میں نے
ماضی کے ہر انداز کو دیکھا میں نے
کل نام ترا لیا جو بُوئے گُل نے
تا دیر اُس آواز کو دیکھا میں نے

0
292
حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچھا ہے
اس سے میرا مہِ خورشید جمال اچھا ہے
بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ
جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغرِ جم سے مرا جامِ سفال اچھا ہے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
643
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
جاں کالبدِ صورتِ دیوار میں آوے
سائے کی طرح ساتھ پھریں سرو و صنوبر
تو اس قدِ دل کش سے جو گلزار میں آوے
تب نازِ گراں مایگیٔ اشک بجا ہے
جب لختِ جگر دیدۂ خوں بار میں آوے

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


0
1309
آج کی شب تو کسی طور گُزر جائے گی
رات گہری ہے مگر چاند چمکتا ہے ابھی
میرے ماتھے پہ ترا پیار دمکتا ہے ابھی
میری سانسوں میں ترا لمس مہکتا ہے ابھی
میرے سینے میں ترا نام دھڑکتا ہے ابھی
زیست کرنے کو مرے پاس بہت کُچھ ہے ابھی

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


1960
شیریں زبانیوں کے دریچے اُجڑ گئے
وہ لُطفِ حرف و لذّتِ حسنِ بیاں کہاں
پیچھے گُزر گئی ہے سِتاروں کی روشنی
یارو ، بسا رہے ہو نئی بستیاں کہاں
اے منزلِ ابد کے چراغو ، جواب دو
آگے اب اور ہو گا مرا کارواں کہاں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


1767
پا بہ دامن ہو رہا ہوں بسکہ میں صحرا نورد
خارِ پا ہیں جوہرِ آئینۂ زانو مجھے
دیکھنا حالت مرے دل کی ہم آغوشی کے وقت
ہے نگاہِ آشنا تیرا سرِ ہر مو مجھے
ہوں سراپا سازِ آہنگِ شکایت کچھ نہ پوچھ
ہے یہی بہتر کہ لوگوں میں نہ چھیڑے تو مجھے

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
355
ہجومِ غم سے یاں تک سر نگونی مجھ کو حاصل ہے
کہ تارِ دامن و تارِ نظر میں فرق مشکل ہے
رفوئے زخم سے مطلب ہے لذت زخمِ سوزن کی
سمجھیو مت کہ پاسِ درد سے دیوانہ غافل ہے
وہ گل جس گلستاں میں جلوہ فرمائی کرے غالبؔ
چٹکنا غنچۂ گل کا صدائے خندۂ دل ہے

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


532
میں انھیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
چل نکلتے جو مے پیے ہوتے
قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو
کاشکے تم مرے لیے ہوتے
میری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دل بھی یا رب کئی دیے ہوتے

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
838
آ، کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
طاقتِ بیدادِ انتظار نہیں ہے
دیتے ہیں جنت حیاتِ دہر کے بدلے
نشہ بہ اندازۂ خمار نہیں ہے
گِریہ نکالے ہے تیری بزم سے مجھ کو
ہائے کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے

مفتَعِلن فاعلات مفتَعِلن فِع


0
1944
اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل
زنہار اگر تمھیں ہوسِ نائے و نوش ہے
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے
ساقی بہ جلوہ دشمنِ ایمان و آگہی
مطرب بہ نغمہ رہزنِ تمکین و ہوش ہے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
1233
ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیلِ سحر سو خموش ہے
نے مژدۂ وصال نہ نظارۂ جمال
مدت ہوئی کہ آشتیٔ چشم و گوش ہے
مے نے کیا ہے حسنِ خود آرا کو بے حجاب
اے شوق یاں اجازتِ تسلیمِ ہوش ہے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
859
جو نہ نقدِ داغِ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
تو فسردگی نہاں ہے بہ کمینِ بے زبانی
مجھے اس سے کیا توقّع بہ زمانۂ جوانی
کبھی کودکی میں جس نے نہ سنی مری کہانی
یوں ہی دکھ کسی کو دینا نہیں خوب ورنہ کہتا
کہ مرے عدو کو یا رب ملے میری زندگانی

فَعِلات فاعِلاتن فَعِلات فاعِلاتن


0
433
بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے
جتنے زیادہ ہو گئے اتنے ہی کم ہوئے
پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
ہستی ہماری اپنی فنا پر دلیل ہے
یاں تک مٹے کہ آپ ہم اپنی قسم ہوئے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
1541
نکوہش ہے سزا فریادئ بیدادِ دل بر کی
مبادا خندۂ دنداں نما ہو صبح محشر کی
رگِ لیلیٰ کو خاکِ دشتِ مجنوں ریشگی بخشے
اگر بو دے بجائے دانہ دہقاں نوک نشتر کی
پرِ پروانہ شاید بادبانِ کشتیٔ مے تھا
ہوئی مجلس کی گرمی سے روانی دورِ ساغر کی

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
343
جنوں تہمت کشِ تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
نمک پاشِ خراشِ دل ہے لذت زندگانی کی
کشاکش‌ ہائے ہستی سے کرے کیا سعیِ آزادی
ہوئی زنجیر، موجِ آب کو فرصت روانی کی
پس از مردن بھی دیوانہ زیارت گاہ طفلاں ہے
شرارِ سنگ نے تربت پہ میری گل فشانی کی

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
451
پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے
سینہ جویائے زخمِ کاری ہے
پھِر جگر کھودنے لگا ناخن
آمدِ فصلِ لالہ کاری ہے
قبلۂ مقصدِ نگاہِ نیاز
پھر وہی پردۂ عماری ہے

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


3193
درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں، کہ ہم
الٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا
روبرو کوئی بتِ آئینہ سیما نہ ہوا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
589