Circle Image

شاہدبابا

@shahidbaba

محبت کی راہوں میں دھوکے بہت ہیں
مسافر محبت نے روکے بہت ہیں
مگر چاہا جانا ضرورت ہے اپنی
نرالے ہیں کُچھ کُچھ، انوکھے بہت ہیں
ذرا بچ کے چلنا زمانہ گروں سے
ستم کرنے والے غضب کے بہت ہیں

0
105
ہر اک دُعا کا تیری تُجھ کو اجر ملے
جیسا عمل ہو تیرا، ویسا ثمر ملے
سایہ بنا رہے تُو اوروں کی راہ میں
ہر گام پر سفر میں تُجھ کو شجر ملے
سچی لگن ہے تیری، دل جاں نثار ہے
میری دُعا ہے تُجھ کو آساں سفر ملے

0
114
ستاروں سے بڑھ کر ستارے بہت ہیں
ترے راستے میں تمھارے بہت ہیں
ہیں دشوار کچھ راستے زندگی کے
سفر میں سفر کے سہارے بہت ہیں
غضب کی ہے دریا کی لہروں میں ہلچل
تو دریا میں ہمت کے دھارے بہت ہیں

0
70
خزاں میں اگر پُھول کِھلتے نہیں
بہاروں میں کِھلنے سے رُکتے نہیں
گزرتے گزرتے گزر جاتے ہیں
خزاؤں کے موسم ٹھہرتے نہیں
سنا کچھ ہوا شہر میں یوں چلی
کہ اب لوگ گھر سے نِکلتے نہیں

0
138
دل ہے اچھا اگر ہے زباں اچھی
تِیر اچھا اگر ہے کماں اچھی
عُنواں اچھا ہو چاہے بُرا صاحب
بات رہتی نہیں ہے نِہاں اچھی
چُپ سے بڑھ کہ ہے لب پر بھلے کی بات
بات اُلٹی سے چُپ مہرباں اچھی

0
55
اچھا تو یہ بتائیے کیسا رہا سفر
ٹوٹے کہاں پہ جوتے، چھالے کہاں پڑے
کس جاہ راستے میں چھانے لگا ابر
بارش کہاں پہ برسی، اولے کہاں پڑے
پُرپیچ راستے کا لمبا تھا کچھ سفر
روکا گیا کہاں پر، تالے کہاں پڑے

0
819
خرابوں کی بستی وہ گھر چھوڑ دے
جہاں دل لُٹے وہ ڈگر چھوڑ دے
شبِ تار سے نکلے ایسے سحر
ثمر جیسے اپنا شجر چھوڑ دے
سفر میں نہ گر راس آئے قیام
تو بہتر ہے راہی نگر چھوڑ دے

0
80
پرندہ کہیں جو شجر چھوڑ دے
تو ایسے ہے جیسے وہ گھر چھوڑ دے
بھلے ہی بنائے شجر کو وہ گھر
یہ ممکن نہیں بال و پر چھوڑ دے
زمیں آسماں نیلگوں یہ فضا
بھلا کیسے اِن کو نظر چھوڑ دے

0
75
اگر چاہو رُتوں کو پھر میں اپنے ساتھ لے آوٗں
تری آنکھوں میں خوابوں کی حسیں بارات لے آوٗں
سرِ دل پھر خیالوں میں چراغِ آرزُو رکھ دُوں
کہو جو تُم زُباں پر پھر میں دِل کی بات لے آوٗں
رہوں مہرِ وفا بن کے میں ہر دم تیری دُنیا میں
اُجالے تیرہ راتوں کو بھی دے کر مات لے آوٗں

0
65
گُزر گیا اک زمانہ جیسے
بنا کے دل کو نشانہ جیسے
گزر گئے جانے کتنے موسم
خیال و خاطر کے رزم پیہم
تری محبت فسانہ جیسے
شجر کی شاخوں پہ اک پرندہ

0
85
سازِ ہستی کی سَحر دم پھر صدا آنے لگی
رات بھر کی خامشی سے اک نِدا آنے لگی
چیرتی تیرہ فضا کو آسماں پر لَو گئی
صحنِ گُلشن میں سحر کی پھر ضیا آنے لگی
لو بلادِ زندگی میں آ گیا پھر آفتاب
روشنی بزمِ جہاں کے رنگ دکھلانے لگی

0
111
من پسندی من پسندی ایک ایسا پنجرہ ہے جو کہ ہماری ذات میں فطرتاََ موجود ہے۔  ہم سب اپنی ذات میںمن پسندی کے رُجحان کو بڑی احتیاط و تمنّا کے ساتھ سینت سینت کررکھتے ہیں۔  اور اس پنجرے اپنے من پسندوں اپنے من چاہوں کو پرندوں کی طرح قید کرتے ہیں۔ اور اُن سے ہمہ وقت سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ ہماری من پسند بولیاں سیکھیں اور اُن کو اپنی توتلی محبت بھری زبان میں دُھرا کر، ہماری خُوبیوں کے گیت گا گا کر ہمارا دل خُوش کرتے رہیں۔ہمارے من پسند اطوار اپنائیں، جیسا ہم چاہیں ویسا پہنیں ، جو ہم چاہیں کریں،  الغرض جیسے ہمیں پسند ہو بالکل ویسے ہی بنے رہیں۔ لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہو جاتا کہ ہماراپگلا من کسی ایسے پرندے پر آجاتا ہے جو یہ سب کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ جو ہماری’ حسیں توقعات‘ کو چکنا چُور کر دیتا ہے۔ جو ہمیں اپنی سی سُنانا چاہتا ہے، اور اپنی سی کرنا چاہتا ہے۔اُس وقت ہمارے من پسندی کے پنجرے کا انجر پنجر سب خطرے میں پڑ جاتا ہے۔تب ہمارا من پسندی کا پنجرہ زندانِ نفرت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔یاپھر ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جس پرندے کو ہم نے اپنے پنجرے کی زینت بنانا چاہا اُس کے بال و پر ہماری توقع سےکہیں بڑھ کر

0
105
بارشوں میں دُھل گئے، سب شجر سنور گئے
تپ چڑھی زمین سے رنج کے اثر گئے
آسماں پہ کُھل گئی موتیوں کی آبشار
ہر طرف زمین پر آئینے بِکھر گئے
گُنگنا اُٹھی فِضا بادلوں کے گیت سے
جُھومتی پَھوہار کے سُر ہوا میں بھر گئے

0
72
پُوچھتے ہو یہ ہم سے صاحب، لکھنا کیونکر چھوڑ دیا
لکھتے تھے ہم جِن کی خاطر اُن نے جو دل توڑ دیا
بے قدروں سے یاری چُھوٹی یہ تو بڑا اک کام ہُوا
جا تے جاتے عشق نے دل کا عقل سے رشتہ جوڑ دیا
سچ کے حملوں نے رستے کو سارے بُتوں سے پاک کیا
عشق کے دریا کو قدرت نے بڑے غضب کا موڑ دیا

0
94