من پسندی 

من پسندی ایک ایسا پنجرہ ہے جو کہ ہماری ذات میں فطرتاََ موجود ہے۔  ہم سب اپنی ذات میںمن پسندی کے رُجحان کو بڑی احتیاط و تمنّا کے ساتھ سینت سینت کررکھتے ہیں۔  اور اس پنجرے اپنے من پسندوں اپنے من چاہوں کو پرندوں کی طرح قید کرتے ہیں۔ اور اُن سے ہمہ وقت سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ ہماری من پسند بولیاں سیکھیں اور اُن کو اپنی توتلی محبت بھری زبان میں دُھرا کر، ہماری خُوبیوں کے گیت گا گا کر ہمارا دل خُوش کرتے رہیں۔ہمارے من پسند اطوار اپنائیں، جیسا ہم چاہیں ویسا پہنیں ، جو ہم چاہیں کریں،  الغرض جیسے ہمیں پسند ہو بالکل ویسے ہی بنے رہیں۔ لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہو جاتا کہ ہماراپگلا من کسی ایسے پرندے پر آجاتا ہے جو یہ سب کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ جو ہماری’ حسیں توقعات‘ کو چکنا چُور کر دیتا ہے۔ جو ہمیں اپنی سی سُنانا چاہتا ہے، اور اپنی سی کرنا چاہتا ہے۔اُس وقت ہمارے من پسندی کے پنجرے کا انجر پنجر سب خطرے میں پڑ جاتا ہے۔تب ہمارا من پسندی کا پنجرہ زندانِ نفرت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

یاپھر ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جس پرندے کو ہم نے اپنے پنجرے کی زینت بنانا چاہا اُس کے بال و پر ہماری توقع سےکہیں بڑھ کر سُنہرے اور شاندار تھے، وہ دراصل پنجروں کے لئے نہیں بلکہ کھلی فضائوں میں اُڑانیں بھرنے کے لئے تخلیق کئے گئے تھے۔ایسے پرندے من پسندی پر تُلے لوگوں کے لئے بڑے دُکھ اور آزار کا باعث بنتے ہیں۔وہ  اُن پرندوں سے حسد کرنے لگتے ہیں،  اُن کے پر کاٹ دینا چاہتے ہیں۔  تب اُن کی محبت خود ہی اُن کے لئے عذاب بن جاتی ہے،  اوروہ اپنی من پسندی کے پنجرے کےبذاتِ خود قیدی بن جاتے ہیں ۔جو کہ بلاتاخیرایک ظُلمت خانہِ غم کی سی صُورت اختیار کر لیتا ہے۔

 کبھی دیکھا کسی کو آہیں بھرتے، راتوں کو جاگ جاگ اُٹھتے، اور دن بھر بے چین پھرتے؟ 

کبھی پُوچھنا تو اُن سے ، حال اُن کا!

شاہدباوا جون ۲۰۲۱؁ء



1
121
اک دوست (سر کفایت اللہ) کے نام
آزاد نظم
" میرے اشعار"
کل اک دوست یہ کہنے لگے
بن محبوب کے بیت ترے
ہیں قرطاس پہ گیت ترے
یہ امکان بڑا ہے عجب
کر لیتے ہو یہ کیسے غضب
میرے سامنے ایک مگس
رس گل کا پی رہی تھی وہ
دیکھا وہیں اک اور منظر
اوس بھی گل سے ملنے لگی
یہ سب کچھ جو دکھایا اسے
من میں رہنے والے اک
شاعر سے ملوایا اسے
کہہ کے بیت بتایا اسے
فطرت کے ایسے ہی ملن
مجھ سے لکھوا لیتے ہیں شعر

0