گُزر گیا اک زمانہ جیسے
بنا کے دل کو نشانہ جیسے
گزر گئے جانے کتنے موسم
خیال و خاطر کے رزم پیہم
تری محبت فسانہ جیسے
شجر کی شاخوں پہ اک پرندہ
بہت دنوں سرِ شام آ کر
کہیں وہ اپنا بھی دل لگا کر
سُناتا رہتا ہے اپنے زندہ
دلِ حزیں کا ترانہ جیسے
بِتا ہے ایسے گُلوں کا موسم
حیات کچھ یوں بسر ہوئی ہے
مسافتوں ہی میں کٹ گئی ہے
بکھر گئے راستوں میں ہم تم
لُٹا ہو دل کا خزانہ جیسے
شبوں میں اُٹھ اُٹھ کے آہیں بھرنا
فریب سب تھا وہ آرزو کا
زمانہ وہ تیری جستجو کا
یہاں تھا مقدور دل کا جلنا
تھی زندگی اک بہانہ جیسے

0
105