پُوچھتے ہو یہ ہم سے صاحب، لکھنا کیونکر چھوڑ دیا
لکھتے تھے ہم جِن کی خاطر اُن نے جو دل توڑ دیا
بے قدروں سے یاری چُھوٹی یہ تو بڑا اک کام ہُوا
جا تے جاتے عشق نے دل کا عقل سے رشتہ جوڑ دیا
سچ کے حملوں نے رستے کو سارے بُتوں سے پاک کیا
عشق کے دریا کو قدرت نے بڑے غضب کا موڑ دیا
سچ تو یہ ہے ناکامی بھی فطرت کا اک حربہ ہے
کُچھ مسئلوں کو حل کیا تو باقی بَچوں کو پھوڑ دیا
چلنے کی تدبیر یہ باندھی دل کو راہ شناس کیا
جِس رستے پر دل نہیں آیا اُس رستے کو چھوڑ دیا
لِکھتے ہیں اب دل کی خاطر، بات پتے کی کہتے ہیں
دل کی کہنے سننے نے ہی ٹُوٹے دل کو جوڑ دیا

0
123