سازِ ہستی کی سَحر دم پھر صدا آنے لگی
رات بھر کی خامشی سے اک نِدا آنے لگی
چیرتی تیرہ فضا کو آسماں پر لَو گئی
صحنِ گُلشن میں سحر کی پھر ضیا آنے لگی
لو بلادِ زندگی میں آ گیا پھر آفتاب
روشنی بزمِ جہاں کے رنگ دکھلانے لگی
شب کی ظُلمت چَھٹ گئی ہر سُو اُجالا ہو گیا
پھر سروں پر آشنائی کی رِدا آنے لگی
عارضِ گُل کو ملی پھر آسمانوں سے جِلا
شبنمیں سبزے پہ سونے کی قبا آنے لگی
مستئی شب کا فُسوں ٹُوٹا سحر کے نُور سے
کاروانِ شوق سے بانگِ درا آنے لگی
پھر لِباسِ زندگی پہنا عروسِ ارض نے
آسمانوں سے صدائے مرحبا آنے لگی
نکہتِ گُل، گُل کے سینے میں ہُوئی بیدار پھر
نکہتِ گُل سے لپٹ کر پھر صبا آنے لگی
خواب آگیں فُرصتِ شب سے ہُوئے بیدار جب
سب چمن والوں کو جینے کی ادا آنے لگی
صحنِ گُلشن میں گُلوں کو مُسکراتا دیکھ کر
یاد مُجھ کو ایک بُھولی سی دُعا آنے لگی

0
125