خزاں میں اگر پُھول کِھلتے نہیں
بہاروں میں کِھلنے سے رُکتے نہیں
گزرتے گزرتے گزر جاتے ہیں
خزاؤں کے موسم ٹھہرتے نہیں
سنا کچھ ہوا شہر میں یوں چلی
کہ اب لوگ گھر سے نِکلتے نہیں
گھروں میں پڑے خود کو بہلاتے ہیں
سنا لوگ آپس میں ملتے نہیں
بڑے ظرف والے مرے یار ہیں
دکھے بھی اگر دل بگڑتے نہیں
بنا ہے مقدر بنانے سے دل
مقدر بِنا دل کے بنتے نہیں
ملیں گے وہ آخر یہیں پر کہیں
ہر اک موڑ پر جو کہ ملتے نہیں
قیامت ہے بدلیں ہواؤں کے ساتھ
وفادار جن کے بدلتے نہیں

0
140