پرندہ کہیں جو شجر چھوڑ دے
تو ایسے ہے جیسے وہ گھر چھوڑ دے
بھلے ہی بنائے شجر کو وہ گھر
یہ ممکن نہیں بال و پر چھوڑ دے
زمیں آسماں نیلگوں یہ فضا
بھلا کیسے اِن کو نظر چھوڑ دے
فسوں ہو چکا جبکہ شب کا تمام
سرِ آسماں اب سحر چھوڑ دے
دِکھا کر مجھے خود حقیقت مری
مرے جان و دل میں شرر چھوڑ دے

0
91