Circle Image

Altafkishtwari

@hussainaltaf

دھڑکنیں اب دلِ بسمل سے سبھی پاک ہوئیں
مرے زخموں کی ردائیں مرا پوشاک ہوئیں
میں ہی کیوں یاد کروں دوستو ہر بار تمہیں
کیا تمہاری سبھی یادیں تہِ خاشاک ہوئیں
میں نے رو کر تری یادوں میں لہو ہار لیا
حادثہ ہے کہ تری آنکھ بھی نم ناک ہوئیں

4
آ گ پھولوں کو یہاں ہم نے اگلتے دیکھا
برف کی آنچ پہ ہانڈی کو اُبلتے دیکھا
جسم کا گوشت سبھی چھین لیا سورج نے
ہڈیوں کو بھی مشینوں میں کچلتے دیکھا
وہ جو حق بات کی تلقین کیا کرتے تھے
ہم نے محراب تلے ان کو پھسلتے دیکھا

10
جو نہ لے سکا تھا ترے لئے یہی سوچ کے توُ دکھی ہوئی
وہ ترے نصیب کی بالیاں اُسی طاق میں ہیں پڑی ہوئی
وہ اُ داس لمحوں کے لفظ سب ہیں کتابِ جاں میں لکھے ہوئے
وہ عنایتیں ترے درد کی رگِ جاں میں سب ہیں چھپی ہوئی
تجھے دیکھ لوں یہی آس تھی نہ تو دور تھی نہ ہی پاس تھی
وہی مے گزشتہ شباب کی ہے زرا سی اب بھی بچی ہوئی

0
3
وہ تھا قاصد یا سوالی اور میں ہنستا رہا
پھر رہا تھا ڈالی ڈالی اور میں ہنستا رہا
جب کبھی لفظوں کو کاغذ سے اُڑاتی ہے ہوا
دیکھ کر اوراق خالی اور میں ہنستا رہا
اب سمندر سے بھلا واپس کہاں آئے گی یہ
یہ زمیں پانی نے کھا لی اور میں ہنستا رہا

0
11
چشمِ ساحل پہ سجے دیپ جلانے کے لئے
میں نے پہنا ہے تجھے خود کو چھپانے کے لئے
زرد کرنوں کی ہوس سائے مٹانے کے لئے
لوگ آئے ہیں یہاں پیڑ گرانے کے لئے
وہ ترے ہاتھ میں خوش بخت قلم ہے کیسا
نام لکھتا ہے مرا روز مٹانے کے لئے

0
5
پنچھی اُڑے سبھی کوئی سایا نہیں رہا
اب صحن میں وہ یاد کا بوٹا نہیں رہا
کچھ اور چہرے آگئے ہیں آئینے میں اب
میں بھی تو اس نگاہ میں تنہا نہیں رہا
برقیں چُرائیںاُس سے چڑاتا ہے منھ مرا
تھا اک چناب جو ابھی دریا نہیں رہا

0
6
ہرطرف ہر نگر بے صدا بام و در
سبز خوابوں کا گھر بے صدا بام و در
رینگتی اب نہیں کاغذوں پر سطر
لفظ ہیں تر بتر بے صدا بام و در
آنکھیں خاموش ہیں گوش بر شور ہیں
لب تو ہلتے ہیں پر بے صدا بام و در

0
9
نہ تھم پائیں گے یہ بادل کبھی تم سے جدا ہوکر
ہَوا ہو جائے گی پاگل کبھی تم سے جدا ہوکر
یہ زیور عشق کے مٹی میں بھی محفوظ ہی ہونگے
نہ بن پائیں گے یہ پیتل کبھی تم سے جدا ہوکر
نہ چھو لیں گے کبھی لب سے تمہارے شوخ رنگوں کو
ہوا جب تھام لے آنچل کبھی تم سے جدا ہوکر

0
10
آنکھوں کا اشک ٹھہرا ہے ساغر میں ڈوب کر
سورج لہو لہو ہے سمندر میں ڈوب کر
جب کُرب ہجر کا بہا کاجل میں رات بھر
پھر نیند رہ گئی ہے مقدر میں ڈوب کر
ساحل پہ رہ گئی ہے کوئی لہر ٹوٹ کر
اُبھری تھی آنکھ سے دلِ مضطر میں ڈوب کر

0
12
درد سے خود دوائیں نکلیں گی
جسم سے جب قبائیں نکلیں گی
روشنی مٹھیوں میں قید کرو
اُنگلیوں سے شعائیں نکلیں گی
بے رخی سے جو پیش آو کبھی
ماں کے لب سے دعائیں نکلیں گی

0
11
ترے جانے سے بے کلی سی ہے
ایسا لگتا ہے کچھ کمی سی ہے
ترے بن کٹ رہی ہے عمر کی شام
جیسے بیوہ کی زندگی سی ہے
کون رہتا ہے دل کے شیشے میں
ایک بے شکل آدمی سی ہے

0
7
عمر بھر جو لکھی کتاب سراب
مرے نغمے ترا شباب سراب
وہ جو اُڑتے تھے دل کے ساگر پر
سارے نکلے ہیں وہ عقاب سراب
وہ جو احساس تھا یا منظر تھا
وہ صبا تتلیاں گلاب سراب

0
9
آنکھوں سے اُبلتے سبھی گوہر مجھے دینا
بچھڑے ہوئے لمحوں کے مقدر مجھے دینا
جب چھین لے مجھ سے مرا پوشاک زمانہ
تم اپنی وفاوں کی چادر مجھے دینا
جب بند ہوں ہر سمت یہ مے خانۂ الفت
تم اپنی نگاہوں کے ساغر مجھے دینا

14