دھڑکنیں اب دلِ بسمل سے سبھی پاک ہوئیں
مرے زخموں کی ردائیں مرا پوشاک ہوئیں
میں ہی کیوں یاد کروں دوستو ہر بار تمہیں
کیا تمہاری سبھی یادیں تہِ خاشاک ہوئیں
میں نے رو کر تری یادوں میں لہو ہار لیا
حادثہ ہے کہ تری آنکھ بھی نم ناک ہوئیں
عمر کی پونجی ترے نام کے صدقے کردی
حسرتیں اب مرے خوابوں کی یہ املاک ہوئیں
کون الطاف ہواؤں میں مسرت بھر دے
گل سے اُٹھتی ہوئی لہریں سبھی غم ناک ہوئیں

4