| پنچھی اُڑے سبھی کوئی سایا نہیں رہا |
| اب صحن میں وہ یاد کا بوٹا نہیں رہا |
| کچھ اور چہرے آگئے ہیں آئینے میں اب |
| میں بھی تو اس نگاہ میں تنہا نہیں رہا |
| برقیں چُرائیںاُس سے چڑاتا ہے منھ مرا |
| تھا اک چناب جو ابھی دریا نہیں رہا |
| جانے رہا ہے کون وہ پہلو میں عمر بھر |
| تنہا بہت رہا ہوں میں یکتا نہیں رہا |
| دریا رواں تھے اشک ندامت کے بے شمار |
| صحرا کی تپتی دھوپ میں پیاسا نہیں رہا |
| تیرے سمندروں سے پرے شور تھا بہت |
| تجھ سے ملا تو پھر میں وہ دریا نہیں رہا |
| اک عمر سے طلب تھی مجھے چاندنی تری |
| پورا ہوا جو چاند میں آ دھا نہیں رہا |
| الطافؔ کس نے چھین لیا ہے مکان سے |
| مٹی کا ،گھر میں اب کے وہ چولہا نہیں رہا |
معلومات