آنکھوں سے اُبلتے سبھی گوہر مجھے دینا
بچھڑے ہوئے لمحوں کے مقدر مجھے دینا
جب چھین لے مجھ سے مرا پوشاک زمانہ
تم اپنی وفاوں کی چادر مجھے دینا
جب بند ہوں ہر سمت یہ مے خانۂ الفت
تم اپنی نگاہوں کے ساغر مجھے دینا
معدوم خلاوں میں ہو جاوں جو اک دن
تم ابر بچھائے ہوئے بستر مجھے دینا
جو ساتھ گزارے تھے کڑی دھوپ میں ہم نے
وہ عمر کے لمحے سبھی آکر مجھے دینا
رکھا ہے کہاں وقت نے تو ڈھونڈ اسے پھر
اے آئینے وہ عمر کا پیکر مجھے دینا
الطاف بچھائی ہے عدو نے فضا میں آگ
بکتر نہیں تو لفظ کے لشکر مجھے دینا

14