وہ تھا قاصد یا سوالی اور میں ہنستا رہا
پھر رہا تھا ڈالی ڈالی اور میں ہنستا رہا
جب کبھی لفظوں کو کاغذ سے اُڑاتی ہے ہوا
دیکھ کر اوراق خالی اور میں ہنستا رہا
اب سمندر سے بھلا واپس کہاں آئے گی یہ
یہ زمیں پانی نے کھا لی اور میں ہنستا رہا
رات کے پچھلے پہر سایوں میں تھی اک کشمکش
دیکھ کر کھڑکی کی جھالی اور میں ہنستا رہا
اب وہ یادوں کی شکن بستر سے جا تی ہی نہیں
رات جب تو نے چرا لی اور میں ہنستا رہا
بیل اور ہل بیچ آیا ہے غنیمِ وقت کو
وہ مرے کھیتوں کا ہالی اورمیں ہنستا رہا
میں رہا الطاف دل کے در پہ پانی کو لئے
اس نے تو ڈولی سجا لی اور میں ہنستا رہا

0
11