| درد سے خود دوائیں نکلیں گی |
| جسم سے جب قبائیں نکلیں گی |
| روشنی مٹھیوں میں قید کرو |
| اُنگلیوں سے شعائیں نکلیں گی |
| بے رخی سے جو پیش آو کبھی |
| ماں کے لب سے دعائیں نکلیں گی |
| تم محبت کے دل سے بات کرو |
| پتھروں سے صدائیں نکلیں گی |
| برہنہ سر صدائے دختر سے |
| بادلوں سے ردائیں نکلیں گی |
| جب زمیں پر زمیں کے لعل لڑیں |
| بین کرتی وہ مائیں نکلیں گی |
| ہم بھی الطافؔ اُن کو دیکھیں گے |
| شہر سے جب وفائیں نکلیں گی |
معلومات