درد سے خود دوائیں نکلیں گی
جسم سے جب قبائیں نکلیں گی
روشنی مٹھیوں میں قید کرو
اُنگلیوں سے شعائیں نکلیں گی
بے رخی سے جو پیش آو کبھی
ماں کے لب سے دعائیں نکلیں گی
تم محبت کے دل سے بات کرو
پتھروں سے صدائیں نکلیں گی
برہنہ سر صدائے دختر سے
بادلوں سے ردائیں نکلیں گی
جب زمیں پر زمیں کے لعل لڑیں
بین کرتی وہ مائیں نکلیں گی
ہم بھی الطافؔ اُن کو دیکھیں گے
شہر سے جب وفائیں نکلیں گی

0
11