ترے جانے سے بے کلی سی ہے
ایسا لگتا ہے کچھ کمی سی ہے
ترے بن کٹ رہی ہے عمر کی شام
جیسے بیوہ کی زندگی سی ہے
کون رہتا ہے دل کے شیشے میں
ایک بے شکل آدمی سی ہے
جو محبت ہے دل کی دھڑکن ہے
مرے پہلو میں اجنبی سی ہے
کبھی نفرت کبھی محبت ہے
عشق ہے یہ، یا عاشقی سی ہے
بند ہر سمت ہیں در و روزن
ایک کھڑکی ہے روشنی سی ہے
چھید ڈالا ہے وقت نے اس کو
وہ بھی الطافؔ بانسری سی ہے

0
7