جو نہ لے سکا تھا ترے لئے یہی سوچ کے توُ دکھی ہوئی |
وہ ترے نصیب کی بالیاں اُسی طاق میں ہیں پڑی ہوئی |
وہ اُ داس لمحوں کے لفظ سب ہیں کتابِ جاں میں لکھے ہوئے |
وہ عنایتیں ترے درد کی رگِ جاں میں سب ہیں چھپی ہوئی |
تجھے دیکھ لوں یہی آس تھی نہ تو دور تھی نہ ہی پاس تھی |
وہی مے گزشتہ شباب کی ہے زرا سی اب بھی بچی ہوئی |
وہ بدن بھی تھا کسی اور کا جو سخی نہ مجھ پہ ہوا کبھی |
وہ اداس بو ترے حسن کی ابھی جسم میں ہے بسی ہوئی |
کئی مدتوں سے الا وہے یہ سلگتی آ ب پہ ناؤ ہے |
جو تری چمک سے جلی یہاں نہ بجی وہ آگ لگی ہوئی |
کبھی قیس گزرا تھا تشنہ لب کبھی رانجھا گزرا ہے جاں بہ لب |
جو بھی گزرا ہے وہ فقیر سا یہ عجوبہ تیری گلی ہوئی |
تو افق کی گود سے دے جنم کسی آفتاب کو پھر صنم |
ہے جبینِ شوق کے درمیاں یہ سیاہی شب کی ملی ہوئی |
وہ جو خط نہ تم نے پڑھا کبھی دیا ڈاکیے نے وہ پھیر کر |
وہی چھٹی اب بھی ہے میز پر مری زندگی کی لکھی ہوئی |
معلومات