آنکھوں کا اشک ٹھہرا ہے ساغر میں ڈوب کر |
سورج لہو لہو ہے سمندر میں ڈوب کر |
جب کُرب ہجر کا بہا کاجل میں رات بھر |
پھر نیند رہ گئی ہے مقدر میں ڈوب کر |
ساحل پہ رہ گئی ہے کوئی لہر ٹوٹ کر |
اُبھری تھی آنکھ سے دلِ مضطر میں ڈوب کر |
پِگلا کسی دعا سے کوئی سنگِ سخت آج |
سانسیں رہن رہیں کسی پتھر میں ڈوب کر |
سائے بچھڑ گئے ہیں ابھی سرخ دھوپ میں |
وہ بھی فنا ہوئے کسی بے گھر میں ڈوب کر |
رنگوں کے روپ سارے کوئی چھین کر گیا |
آئینے میں بہی ہے کوئی عمر ڈوب کر |
الطاف اُس شفق میں چھپے راز کھل گئے |
بہتی ہیں خوں کی لہریں ترے گھر میں ڈوب کر |
معلومات