دیارِ غیر میں کوئی جہاں نہ اپنا ہو
شدید کرب کی گھڑیاں گزار چکنے پر
کچھ اتفاق ہو ایسا کہ ایک شام کہیں
کسی اِک ایسی جگہ سے ہو یوں ہی میرا گزر
جہاں ہجومِ گریزاں میں تم نظر آ جاؤ
اور ایک ایک کو حیرت سے دیکھتا رہ جائے!

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
282
کون سا اسٹیشن ہے؟
’ڈاسنہ ہے صاحب جی
آپ کو اُترنا ہے؟‘
’جی نہیں، نہیں ‘ لیکن
ڈاسنہ تو تھا ہی وہ
میرے ساتھ قیصر تھی

فاعِلن مفاعیلن


2529
تمھارے لہجے میں جو گرمی و حلاوت ہے
اسے بھلا سا کوئی نام دو وفا کی جگہ
غنیمِ نور کا حملہ کہو اندھیروں پر
دیارِ درد میں آمد کہو مسیحا کی
رواں دواں ہوئے خوشبو کے قافلے ہر سو
خلائے صبح میں گونجی سحر کی شہنائی

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
1477
شام ہوتی ہے سحر ہوتی ہے یہ وقت رواں
جو کبھی سنگ گراں بن کے مرے سر پہ گرا
راہ میں آیا کبھی میری ہمالہ بن کر
جو کبھی عقدہ بنا ایسا کہ حل ہی نہ ہوا
اشک بن کر مری آنکھوں سے کبھی ٹپکا ہے
جو کبھی خونِ جگر بن کے مژہ پر آیا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


1238
کہیں قومیت ہے کہیں ملک و ملّت کی زنجیر ہے
کہیں مذہبیت، کہیں حریت، ہر قدم پر عناں گیر ہے
اگر میں یہ پردہ ہٹا دوں جسے لفظ ماضی سے تعبیر کرتے رہے ہیں
اگر میں حدود زماں و مکاں سب مٹا دوں
اگر میں یہ دیواریں جتنی کھڑی ہیں گرا دوں
تو ہر قید اُٹھ جائے، یہ زندگی جو قفس ہے

فَعُولن فَعُولن فَعُولن


753
یہی شاخ تم جس کے نیچے کسی کے لیے چشم نم ہو، یہاں اب سے کچھ سال پہلے مجھے ایک چھوٹی سی بچی ملی تھی جسے میں نے آغوش میں لے کے پوچھا تھا بیٹی: یہاں کیوں کھڑی رو رہی ہو، مجھے اپنے بوسیدہ آنچل میں پھولوں کے گہنے دکھا کر وہ کہنے لگی میرا ساتھی، ادھر، اس نے انگلی اٹھا کر بتایا، ادھر اس طرف ہی جدھر اونچے محلوں کے گنبد، ملوں کی سیہ چمنیاں، آسماں کی طرف سر اُٹھائے کھڑی ہیں، یہ کہہ کر گیا ہے کہ میں سونے چاندی کے گہنے ترے واسطے لینے جاتا ہوں رامی!

فِعْل فَعُول فَعُول فَعُول فَعُول فَعُول فَعُول فَعُولن


0
467
خبر نہیں تم کہاں ہو یارو
ہماری اُفتادِ روز و شب کی
تمہیں خبر مِل سکی کہ تم بھی
رہینِ دستِ خزاں ہو یارو
دِنوں میں تفرِیق مِٹ چُکی ہے
کہ وقت سے خُوش گُماں ہو یارو

مَفاعلاتن مَفاعلاتن


0
1045
واقف نہیں اِس راز سے آشفتہ سراں بھی
غم تیشۂ فرہاد بھی غم سنگِ گراں بھی
اُس شخص سے وابستہ خموشی بھی بیاں بھی
جو نِشترِ فصّاد بھی ہے اَور رگِ جاں بھی
کِس سے کہیں اُس حُسن کا افسانہ کہ جِس کو
کہتے ہیں کہ ظالم ہے، تو رُکتی ہے زباں بھی

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


1440
ہم کافروں کی مشقِ سُخَن ہائے گُفتَنی
اُس مرحلے پہ آئی کہ اِلہام ہو گئی
دُنیا کی بےاُصول عداوت تو دیکھئے
ہم بُوالہوس بنے تو وفا عام ہو گئی
کل رات، اُس کے اَور مِرے ہونٹوں میں تیرا عکس
اَیسے پڑا کہ رات تِرے نام ہو گئی

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
591
دیکھنے کی تو کسے تاب ہے لیکن اب تک
جب بھی اس راہ سے گزرو تو کسی دکھ کی کسک
ٹوکتی ہے کہ وہ دروازہ کھلا ہے اب بھی
اور اس صحن میں ہر سو یونہی پہلے کی طرح
فرشِ نومیدیِ دیدار بچھا ہے اب بھی
اور کہیں یاد کسی دل زدہ بچے کی طرح

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
447
اس ہوس میں کہ پکارے جرسِ گل کی صدا
دشت و صحرا میں صبا پھرتی ہے یوں آوارہ
جس طرح پھرتے ہیں ہم اہلِ جنوں آوارہ
ہم پہ وارفتگیِ ہوش کی تہمت نہ دھرو
ہم کہ رمازِ رموزِ غمِ پنہانی ہیں
اپنی گردن پہ بھی ہے رشتہ فگن خاطرِ دوست

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
440
آج کے دن نہ پوچھو مرے دوستو
دور کتنے ہیں خوشیاں منانے کے دن
کھُل کے ہنسنے کے دن گیت گانے کے دن
پیار کرنے کے دن دل لگانے کے دن
آج کے دن نہ پوچھو مرے دوستو
زخم کتنے ابھی بختِ بسمل میں ہیں

فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن


0
1130
نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفو کی ہے
نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نگاہ ہم پہ عدو کی ہے
صفِ زاہداں ہے تو بے یقیں، صفِ مے کشاں ہے تو بے طلب
نہ وہ صبح ورد و وضو کی ہے، نہ وہ شام جام و سبو کی ہے
نہ یہ غم نیا، نہ ستم نیا، کہ تری جفا کا گلہ کریں
یہ نظرتھی پہلے بھی مضطرب، یہ کسک تو دل میں کبھو کی ہے

متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن


933
کیے آرزو سے پیماں جو مآل تک نہ پہنچے
شب و روزِ آشنائی مہ و سال تک نہ پہنچے
وہ نظر بہم نہ پہنچی کہ محیطِ حسن کرتے
تری دید کے وسیلے خد و خال تک نہ پہنچے
وہی چشمۂ بقا تھا جسے سب سراب سمجھے
وہی خواب معتبر تھے جو خیال تک نہ پہنچے

فَعِلات فاعِلاتن فَعِلات فاعِلاتن


0
1040
کس حرف پہ تو نے گوشۂ لب اے جانِ جہاں غماز کیا
اعلانِ جنوں دل والوں نے اب کے بہ ہزار انداز کیا
سو پیکاں تھے پیوستِ گلو، جب چھیڑی شوق کی لےَ ہم نے
سو تیرِ ترازو تھے دل میں جب ہم نے رقص آغاز کیا
بے حرص و ہوا، بے خوف و خطر، اِس ہاتھ پہ سر، اُس کف پہ جگر
یوں کوئے صنم میں وقتِ سفر نظارۂ بامِ ناز کیا

بحرِ زمزمہ/ متدارک مثمن مضاعف


0
1623
درد تھم جائے گا غم نہ کر، غم نہ کر
یار لوٹ آئیں گے، دل ٹھہر جائے گا، غم نہ کر، غم نہ کر
زخم بھر جائے گا،
غم نہ کر، غم نہ کر
دن نکل آئے گا
غم نہ کر، غم نہ کر

فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن


0
1162
یہاں سے شہر کو دیکھو تو حلقہ در حلقہ
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہر ایک راہ گزر گردشِ اسیراں ہے
نہ سنگِ میل، نہ منزل، نہ مخلصی کی سبیل
جو کوئی تیز چلے رہ تو پوچھتا ہے خیال
کہ ٹوکنے کوئی للکار کیوں نہیں آئی

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
1342
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ دست و ناخنِ قاتل نہ آستیں پہ نشاں
نہ سرخیِ لبِ خنجر نہ رنگِ نوکِ سناں
نہ خاک پر کوئی دھبا نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ صرف خدمتِ شاہاں کہ خوں بہا دیتے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
1701
لب پر ہے فریاد کہ ساقی یہ کیسا میخانہ ہے
رنگِ خونِ دل نہیں چمکا، گردش میں پیمانہ ہے
مٹ بھی چکیں امیدیں مگر باقی ہے فریب امیدوں کا
اس کو یہاں سے کون نکالے، یہ تو صاحبِ خانہ ہے
ایسی باتیں اور سے جا کر کہئے تو کچھ بات بھی ہے
اس سے کہے کیا حاصل جس کو سچ بھی تمہارا بہانہ ہے

بحرِ ہندی/ متقارب مثمن مضاعف


0
1475
نہیں سنتا دلِ ناشاد میری
ہوئی ہے زندگی برباد میری
رہائی کی اُمیدیں مجھ کو معلوم
تسّلی کر نہ اے صیّاد میری
نہیں ہے بزم میں ان کی رسائی
یہ کیا فریاد ہے فریاد میری

مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن


1390