کہیں قومیت ہے کہیں ملک و ملّت کی زنجیر ہے |
کہیں مذہبیت، کہیں حریت، ہر قدم پر عناں گیر ہے |
اگر میں یہ پردہ ہٹا دوں جسے لفظ ماضی سے تعبیر کرتے رہے ہیں |
اگر میں حدود زماں و مکاں سب مٹا دوں |
اگر میں یہ دیواریں جتنی کھڑی ہیں گرا دوں |
تو ہر قید اُٹھ جائے، یہ زندگی جو قفس ہے |
یوں ہی دیکھتے دیکھتے تیلیاں سب بکھیر جائیں اس کی |
اور انسان اپنے صحیح رُوپ میں ہر جگہ دے دکھائی |
کسی غار کے منہ پہ بیٹھا، کسی سخت اُلجھن میں غلطاں |
کہیں شعلہ دریافت کر نے کی خواہش میں پیچاں |
کہیں زندگی کو نظام و تسلسل میں لانے کا خواہاں |
جہاں کو حسیں دیکھنے کی تمنّا میں کوشاں |
زمیں دور تک ایسے پھیلی ہوئی ہے |
کشادہ کوئی خوانِ نعمت ہے جیسے |
جہاں کوئی پہرہ نہیں کوئی تخصیص و تفریق انساں |
یہ سب کی ہے سب کے لیے ہے یہاں سب ہیں مدعو! |
میں اس شخص کو ڈھونڈتا ہوں جو بانیِ شر ہے |
جو رشیوں، رسولوں کی محنت کو برباد کرتا رہا ہے |
میں اس شخص کو ڈھونڈتا ہوں جو ہر دور میں بے محابا |
نئے بھیس میں سامری بن کے آتا ہے اور موہتا ہے دلوں کو |
اسے ڈھونڈتا ہوں میں جس نے ہر اِک خوان نعمت یہ پہرے لگائے |
زمیں کو زمیں سے الگ کر دیا سیکڑوں نام دے کر |
اجارہ کی بنیاد ڈالی، کیا جاری پروانۂ راہ داری |
بجائے حسیں اعلیٰ قدروں کے تاسیس عالم |
رکھی مصلحت پر، مفادات پر، خود پرستی پہ ساری |
اور انسان کو خام اشیا میں تبدیل کر کے |
بہت پہلے اس سے کہ انسان انسان بنتا |
اسے ایک شطرنج کا چوبی مہرہ بنا کر |
مقابل کھڑا کر دیا ایک کو دوسرے کے |
کہاں ہے وہ قوت وہ ہستی جو یوں عصر کی روح بن کر |
فضاؤں کو مسموم کرتی ہے لاشوں سے بھر دیتی ہے خندقوں کو |
میں للکارتا ہوں اسے وہ اگر اتنا ہی جادو گر ہے |
تو سورج کو مشرق کے بدلے نکالے کبھی آ کے مغرب سے اِک لمحہ بھر کو |
ہواؤں کی تاثیر بدلے پہاڑوں کو لاوے میں تبدیل کر دے |
سمندر سکھا دے، ہر اِک جلتے صحرا کو زرخیز میداں بنا دے |
اصول مشیت بدل دے، زمین آسمانوں کے سب سلسلے توڑ ڈالے |
مگر میں اسے کیسے للکار سکتا ہوں، یہ تو خدا ہے |
حیات و نمو کی وہ قوت، تغیر جو خود سامری ہے |
یہ وہ کوزہ گر ہے جو خود مسخ کرتا ہے چہرے بنا کر |
یہ وہ کوزہ گر ہے اسی ایک مٹّی کو ہر بار متھ کر |
بنا کر نئے ظرف رکھتا ہے کچھ دیر شیشیوں کے پیچھے سجا کر |
انھیں خود ہی پھر توڑ دیتا ہے سب ظرف کوزے قوانین اخلاق سارے |
جہاں اتنی شکلیں بنائی بگاڑی ہیں یہ زندگی کا نیا بت بھی اِک دن |
فراموش گاری کے اس ڈھیر میں پھینک دے گا جہاں ایسی کتنی ہی چیزیں پڑی ہیں |
کہ یہ چاک تو چل رہا ہے یوں ہی آفرینش سے گردش میں ہے اور رہے گا! |
بحر
متقارب مسدس سالم
فَعُولن فَعُولن فَعُولن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات