| لب پر ہے فریاد کہ ساقی یہ کیسا میخانہ ہے |
| رنگِ خونِ دل نہیں چمکا، گردش میں پیمانہ ہے |
| مٹ بھی چکیں امیدیں مگر باقی ہے فریب امیدوں کا |
| اس کو یہاں سے کون نکالے، یہ تو صاحبِ خانہ ہے |
| ایسی باتیں اور سے جا کر کہئے تو کچھ بات بھی ہے |
| اس سے کہے کیا حاصل جس کو سچ بھی تمہارا بہانہ ہے |
| طور اطوار انوکھے اس کے، کس بستی سے آیا ہے |
| پاؤں میں لغزش کوئی نہیں ہے، یہ کیسا مستانہ ہے |
| ہم وہ رِند ہیں جن کو اپنی حقیقت بھی افسانہ ہے |
بحر
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات