تو بھی چپ ہے میں بھی چپ ہوں یہ کیسی تنہائی ہے
تیرے ساتھ تری یاد آئی کیا تو سچ مچ آئی ہے
شاید وہ دن پہلا دن تھا پلکیں بوجھل ہونے کا
مجھ کو دیکھتے ہی جب اس کی انگڑائی شرمائی ہے
اس دن پہلی بار ہوا تھا مجھ کو رفاقت کا احساس
جب اس کے ملبوس کی خوشبو گھر پہنچانے آئی ہے

بحرِ ہندی/ متقارب مثمن مضاعف


1197
چاند ستارے قید ہیں سارے وقت کے بندی خانے میں
لیکن میں آزاد ہوں ساقی چھوٹے سے پیمانے میں
عمر ہے فانی عمر ہے باقی اس کی کچھ پروا ہی نہیں
تو یہ کہہ دے وقت لگے گا کتنا آنے جانے میں
تجھ سے دوری دوری کب تھی پاس اور دور تو دھوکا ہیں
فرق نہیں انمول رتن کو کھو کر پھر سے پانے میں

بحرِ ہندی/ متقارب مثمن مضاعف


2
1051
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا
پڑھتے کسو کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا
سعی و تلاش بہت سی رہے گی اس انداز کے کہنے کی
صحبت میں علما فضلا کی جا کر پڑھیے گنیے گا
دل کی تسلی جب کے ہو گی گفت و شنود سے لوگوں کی
آگ پھنکے گی غم کی بدن میں اس میں جلیے بھنیے گا

بحرِ ہندی/ متقارب مثمن مضاعف


933
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا
کیا بھولا کیسے بھولا کیوں پوچھتے ہو بس یوں سمجھو
کارن دوش نہیں ہے کوئی بھولا بھالا بھول گیا
کیسے دن تھے کیسی راتیں کیسی باتیں گھاتیں تھیں
من بالک ہے پہلے پیار کا سندر سپنا بھول گیا

بحرِ ہندی/ متقارب مثمن مضاعف


744
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے
عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہو گا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا دارا جانے ہے

بحرِ ہندی/ متقارب مثمن مضاعف


4508
عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا
جی کا جانا ٹہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا
عشق کیا سو دین گیا ایمان گیا اسلام گیا
دل نے ایسا کام کیا کچھ جس سے میں ناکام گیا
ہائے جوانی کیا کیا کہیے شور سروں میں رکھتے تھے
اب کیا ہے وہ عہد گیا وہ موسم وہ ہنگام گیا

بحرِ ہندی/ متقارب مثمن مضاعف


2
1969
بھول گئے تم جن روزوں ہم گھر پہ بلائے جاتے تھے
ہوتے تھے کیا کیا کچھ چرچے عیش منائے جاتے تھے
کیا کیا کچھ تھی خاطرداری کیا کیا پیار کی باتیں تھیں
کس کس ڈھب سے چاہ جتا کر ربط بڑھائے جاتے تھے
کرتے تھے تم ان کی خوشامد جو تھے ہمارے محرمِ راز
ہر ہر بات پہ کیا کیا ان کے ناز اٹھائے جاتے تھے

بحرِ ہندی/ متقارب مثمن مضاعف


1255
لوگ بہت پوچھا کرتے ہیں کیا کہیے میاں کیا ہے عشق
کچھ کہتے ہیں سرَّ الٰہی کچھ کہتے ہیں خدا ہے عشق
عشق کی شان اکثر ہے ارفع لیکن شانیں عجائب ہیں
گہ ساری ہے دماغ و دل میں گاہے سب سے جدا ہے عشق
کام ہے مشکل الفت کرنا اس گلشن کے نہالوں سے
بو کش ہو کر سیب زقن کا غش نہ کرے تو سزا ہے عشق

بحرِ ہندی/ متقارب مثمن مضاعف


0
809
لب پر ہے فریاد کہ ساقی یہ کیسا میخانہ ہے
رنگِ خونِ دل نہیں چمکا، گردش میں پیمانہ ہے
مٹ بھی چکیں امیدیں مگر باقی ہے فریب امیدوں کا
اس کو یہاں سے کون نکالے، یہ تو صاحبِ خانہ ہے
ایسی باتیں اور سے جا کر کہئے تو کچھ بات بھی ہے
اس سے کہے کیا حاصل جس کو سچ بھی تمہارا بہانہ ہے

بحرِ ہندی/ متقارب مثمن مضاعف


0
1452
ارض و سما میں عشق ہے ساری، چاروں اور بھرا ہے عشق
ہم ہیں جنابِ عشق کے بندے نزدیک اپنے خدا ہے عشق
ظاہر و باطن، اول و آخر، پائیں بالا عشق ہے سب
نور و ظلمت، معنی و صورت سب کچھ آپہی ہوا ہے عشق
ایک طرف جبریل آتا ہے ایک طرف لاتا ہے کتاب
ایک طرف پنہاں ہے دلوں میں ایک طرف پیدا ہے عشق

بحرِ ہندی/ متقارب مثمن مضاعف


0
669
ہر دھڑکن ہیجانی تھی، ہر خاموشی طوفانی تھی
پھر بھی محبت صرف مسلسل ملنے کی آسانی تھی
جس دن اس سے بات ہوئی تھی اس دن بھی بے کیف تھا میں
جس دن اس کا خط آیا تھا اس دن بھی ویرانی تھی
جب اس نے مجھ سے یہ کہا تھا عشق رفاقت ہی تو نہیں
تب میں نے ہر شخص کی صورت مشکل سے پہچانی تھی

بحرِ ہندی/ متقارب مثمن مضاعف


2252