یہاں سے شہر کو دیکھو تو حلقہ در حلقہ |
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل |
ہر ایک راہ گزر گردشِ اسیراں ہے |
نہ سنگِ میل، نہ منزل، نہ مخلصی کی سبیل |
جو کوئی تیز چلے رہ تو پوچھتا ہے خیال |
کہ ٹوکنے کوئی للکار کیوں نہیں آئی |
جو کوئی ہاتھ ہلائے تو وہم کو ہے سوال |
کوئی چھنک، کوئی جھنکار کیوں نہیں آئی |
یہاں سے شہر کو دیکھو تو ساری خلقت میں |
نہ کوئی صاحبِ تمکیں، نہ کوئی والیِ ہوش |
ہر ایک مردِ جواں مجرمِ رسن بہ گلو |
ہر اِک حسینۂ رعنا، کنیزِ حلقہ بگوش |
جو سائے دُور چراغوں کے گرد لرزاں ہیں |
نہ جانے محفلِ غم ہے کہ بزمِ جام و سبُو |
جو رنگ ہر در و دیوار پر پریشاں ہے |
یہاں سے کچھ نہیں کھُلتا یہ پھول ہیں کہ لہو |
بحر
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن |
||
مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات