کس حرف پہ تو نے گوشۂ لب اے جانِ جہاں غماز کیا |
اعلانِ جنوں دل والوں نے اب کے بہ ہزار انداز کیا |
سو پیکاں تھے پیوستِ گلو، جب چھیڑی شوق کی لےَ ہم نے |
سو تیرِ ترازو تھے دل میں جب ہم نے رقص آغاز کیا |
بے حرص و ہوا، بے خوف و خطر، اِس ہاتھ پہ سر، اُس کف پہ جگر |
یوں کوئے صنم میں وقتِ سفر نظارۂ بامِ ناز کیا |
جس خاک میں مل کر خاک ہوئے، وہ سرمۂ چشمِ خلق بنی |
جس خار پہ ہم نے خوں چھڑکا، ہمرنگِ گلِ طناز کیا |
لو وصل کی ساعت آ پہنچی، پھر حکمِ حضوری پر ہم نے |
آنکھوں کے دریچے بند کیے، اور سینے کا در باز کیا |
بحر
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات