آج کے دن نہ پوچھو مرے دوستو |
دور کتنے ہیں خوشیاں منانے کے دن |
کھُل کے ہنسنے کے دن گیت گانے کے دن |
پیار کرنے کے دن دل لگانے کے دن |
آج کے دن نہ پوچھو مرے دوستو |
زخم کتنے ابھی بختِ بسمل میں ہیں |
دشت کتنے ابھی راہِ منزل میں ہیں |
تیر کتنے ابھی دستِ قاتل میں ہیں |
آج کا دن زبوں ہے مرے دوستو |
آج کے دن تو یوں ہے مرے دوستو |
جیسے درد و الم کے پرانے نشاں |
سب چلے سوئے دل کارواں کارواں |
ہاتھ سینے پہ رکھو تو ہر استخواں |
سے اٹھے نالۂ الاماں الاماں |
آج کے دن نہ پوچھو مرے دوستو |
کب تمہارے لہو کے دریدہ عَلم |
فرقِ خورشیدِ محشر پہ ہوں گے رقم |
از کراں تا کراں کب تمہارے قدم |
لے کے اٹھے گا وہ بحرِ خوں یم بہ یم |
جس میں دھُل جائے گا آج کے دن کا غم |
سارے درد و الم سارے جور و ستم |
دور کتنی ہے خورشید محشر کی لو |
آج کے دن نہ پوچھو مرے دوستو |
بحر
متدارک مثمن سالم
فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات