کون سا اسٹیشن ہے؟
’ڈاسنہ ہے صاحب جی
آپ کو اُترنا ہے؟‘
’جی نہیں، نہیں ‘ لیکن
ڈاسنہ تو تھا ہی وہ
میرے ساتھ قیصر تھی
یہ بڑی بڑی آنکھیں
اِک تلاش میں کھوئی
رات بھر نہیں سوئی
جب میں اس کو پہنچانے
اس اُجاڑ بستی میں
ساتھ لے کے آیا تھا
میں نے ان سے پھر پوچھا
آپ مستقل شاید
ڈاسنہ میں رہتے ہیں؟
’’جی، یہاں پہ کچھ میری
سوت کی دُکانیں ہیں
کچھ طعام خانے ہیں‘‘
میں سنا کیا بیٹھا
بولتا رہا وہ شخص
’’کچھ زمین داری ہے
میرے باپ دادا نے
کچھ مکان چھوڑے تھے
ان کو بیچ کر میں نے
کاروبار کھولا ہے
اس حقیر بستی میں
کون آ کے رہتا تھا
لیکن اب یہی بستی
بمبئی ہے دلّی ہے
قیمتیں زمینوں کی
اتنی بڑھ گئی صاحب
’’جیسے خواب کی باتیں‘‘
اِک زمین ہی کیا ہے
کھانے پینے کی چیزیں
عام جینے کی چزایں
بھاؤ دس گنے ہیں اب
بولتا رہا وہ شخص
’’اس قدر گرانی ہے
آگ لگ گئی جیسے
آسمان حد ہے بس‘‘
میں نے چونک کر پوچھا
آسماں محل تھا اِک
سیدوں کی بستی میں
’’آسماں ہی ہیں صاحب
اب محل کہاں ہو گا؟
ہنس پڑا یہ کہہ کر وہ
میرے ذہن میں اس کی
بات پے بہ پے گونجی
’’اب محل کہاں ہو گا‘‘
اس دیار میں شاید
قیصر اب نہیں رہتی
وہ بڑی بڑی آنکھیں
اب نہ دیکھ پاؤں گا
ملک کا یہ بٹوارا
لے گیا کہاں اس کو
ڈیوڑھی کا سنّاٹا
اور ہماری سرگوشی
مجھ سے کتنے چھوٹے ہو‘‘
میں نے کچھ کہا تھا پھر
اس نے کچھ کہا تھا پھر
ہے رقم کہاں وہ سب
درد کی گراں جانی
میری شعلہ افشانی
اس کی جلوہ سامانی
ہے رقم کہاں وہ اب
کرب زیست سب میرا
گفتگو کا ڈھب میرا
اس کا ہاتھ ہاتھوں میں
لے کے جب میں کہتا تھا
اب چھڑاؤ تو جانوں
رسم بے وفائی کو
آج معتبر مانوں
اس کو لے کے با ہوں میں
جھک کے اس کے چہرے پر
بھینچ کر کہا تھا یہ
بولو کیسے نکلو گی
میری دسترس سے تم
میرے اس قفس سے تم
بھورے بادلوں کا دل
دور اُڑتا جاتا ہے
پیڑ پر کہیں بیٹھا
اِک پرند گاتا ہے
’چل چل‘ اِک گلہری کی
کان میں کھٹکتی ہے
ریل چلنے لگتی ہے
راہ کے درختوں کی
چھاؤں ڈھلنے لگتی ہے
’مجھ سے کتنے چھوٹے ہو‘
اور مری گراں گوشی
ڈیوڑھی کا سنّاٹا
اور ہماری سرگوشی
ہے رقم کہاں وہ سب؟
دور اس پرندے نے
اپنا گیت دُہرایا
’آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا
گم کیا ہوا پایا‘‘
بحر
ہزج مربع اشتر
فاعِلن مفاعیلن

2120

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں