چشمِ نم، جانِ شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پا بہ جولاں چلو
دست اَفشاں چلو، مست و رقصاں چلو
خاک برسر چلو، خوں بہ داماں چلو
راہ تَکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو

فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن


10063
اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے​
مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا​
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن​
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا​

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


2311
ہم کہ ٹہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بیدرد لمحے ختمِ دردِ عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


1686
دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت​
درباں کا عصا ہے کہ مصنّف کا قلم ہے​
آوارہ ہے پھر کوہِ ندا پر جو بشارت​
تمہیدِ مسرت ہے کہ طولِ شبِ غم ہے​
جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں​
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علَم ہے​

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


0
1024
گلوں میں رنگ بھرے، بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو، صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


3486
شام کے پیچ و خم ستاروں سے
زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات
یوں صبا پاس سے گزرتی ہے
جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات
صحنِ زنداں کے بے وطن اشجار
سرنگوں محو ہیں بنانے میں

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


3497
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


4346
آج اک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال
مد بھرا حرف کوئی، زہر بھرا حرف کوئی
دلنشیں حرف کوئی، قہر بھرا حرف کوئی
حرفِ نفرت کوئی، شمشیرِ غضب ہو جیسے
تا ابد شہرِ ستم جس سے تباہ ہو جائیں
اتنا تاریک کہ شمشان کی شب ہو جیسے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
645
گل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام
دھل کے نکلے گی ابھی چشمۂ مہتاب سے رات
اور مشتاق نگاہوں کی سنی جائے گی
اور ان ہاتھوں سے مس ہوں گے یہ ترسے ہوئے ہاتھ
ان کا آنچل ہے، کہ رخسار، کہ پیراہن ہے
کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
1858
میرے دل میرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رخ نگر نگر کا
کہ سراغ کوئی پائیں

فَعِلات فاعِلاتن فَعِلات فاعِلاتن


0
2414
آج پھر درد و غم کے دھاگے میں​
ہم پرو کر ترے خیال کے پھول​
ترکِ الفت کے دشت سے چن کر​
آشنائی کے ماہ و سال کے پھول​
​تیری دہلیز پر سجا آئے​
پھر تری یاد پر چڑھا آئے​

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
1110
تُجھے پُکارا ہے بے ارادہ
جو دل دُکھا ہے بہت زیادہ
نَدیم ہو تیرا حرفِ شیریں
تو رنگ پر آئے رنگِ بادہ
عَطا کرو اِک ادائے دیریں
تو اشک سے تر کریں لبادہ

مَفاعلاتن مَفاعلاتن


0
1805
وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوفِ خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ جزا گیا
جو نفس تھا خارِ گلو بنا، جو اٹھے تو ہاتھ لہو ہوئے
وہ نشاطِ آہ سحر گئی وہ وقارِ دستِ دعا گیا
نہ وہ رنگ فصلِ بہار کا، نہ روش وہ ابرِ بہار کی
جس ادا سے یار تھے آشنا وہ مزاجِ بادِ صبا گیا

متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن


0
2118
وہ در کھلا میرے غمکدے کا​
وہ آ گئے میرے ملنے والے​
وہ آگئی شام، اپنی راہوں
میں فرشِ افسردگی بچھانے​
وہ آگئی رات چاند تاروں
کو اپنی آزردگی سنانے​

مَفاعلاتن مَفاعلاتن


0
690
نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش، دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تنِ داغ داغ لُٹا دیا
مرے چارہ گرکو نوید ہو، صفِ دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن ، مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن ، پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا

متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن


0
5331
یوں سجا چاند کہ جھلکا ترے انداز کا رنگ
یوں فضا مہکی کہ بدلا مرے ہمراز کا رنگ
سایۂ چشم میں‌ حیراں رُخِ روشن کا جمال
سُرخیٔ لب میں‌ پریشاں تری آواز کا رنگ
بے پئے ہوں کہ اگر لطف کرو آخرِ شب
شیشۂ مے میں‌ ڈھلے صبح کے آغاز کا رنگ

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


718
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں‌ نہیں ‌دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں‌ نہیں ‌دیتے
دردِ شبِ ہجراں‌ کی جزا کیوں‌ نہیں دیتے
خونِ دلِ وحشی کا صلہ کیوں ‌نہیں دیتے
ہاں ‌نکتہ ورو لاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں‌ نغمہ گرو ساز‌ صدا کیوں‌ نہیں‌ دیتے

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


0
1487
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ دست و ناخنِ قاتل نہ آستیں پہ نشاں
نہ سرخیِ لبِ خنجر نہ رنگِ نوکِ سناں
نہ خاک پر کوئی دھبا نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ صرف خدمتِ شاہاں کہ خوں بہا دیتے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
1722
یہاں سے شہر کو دیکھو تو حلقہ در حلقہ
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہر ایک راہ گزر گردشِ اسیراں ہے
نہ سنگِ میل، نہ منزل، نہ مخلصی کی سبیل
جو کوئی تیز چلے رہ تو پوچھتا ہے خیال
کہ ٹوکنے کوئی للکار کیوں نہیں آئی

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
1348
درد تھم جائے گا غم نہ کر، غم نہ کر
یار لوٹ آئیں گے، دل ٹھہر جائے گا، غم نہ کر، غم نہ کر
زخم بھر جائے گا،
غم نہ کر، غم نہ کر
دن نکل آئے گا
غم نہ کر، غم نہ کر

فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن


0
1169
کس حرف پہ تو نے گوشۂ لب اے جانِ جہاں غماز کیا
اعلانِ جنوں دل والوں نے اب کے بہ ہزار انداز کیا
سو پیکاں تھے پیوستِ گلو، جب چھیڑی شوق کی لےَ ہم نے
سو تیرِ ترازو تھے دل میں جب ہم نے رقص آغاز کیا
بے حرص و ہوا، بے خوف و خطر، اِس ہاتھ پہ سر، اُس کف پہ جگر
یوں کوئے صنم میں وقتِ سفر نظارۂ بامِ ناز کیا

بحرِ زمزمہ/ متدارک مثمن مضاعف


0
1625
کیے آرزو سے پیماں جو مآل تک نہ پہنچے
شب و روزِ آشنائی مہ و سال تک نہ پہنچے
وہ نظر بہم نہ پہنچی کہ محیطِ حسن کرتے
تری دید کے وسیلے خد و خال تک نہ پہنچے
وہی چشمۂ بقا تھا جسے سب سراب سمجھے
وہی خواب معتبر تھے جو خیال تک نہ پہنچے

فَعِلات فاعِلاتن فَعِلات فاعِلاتن


0
1042
نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفو کی ہے
نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نگاہ ہم پہ عدو کی ہے
صفِ زاہداں ہے تو بے یقیں، صفِ مے کشاں ہے تو بے طلب
نہ وہ صبح ورد و وضو کی ہے، نہ وہ شام جام و سبو کی ہے
نہ یہ غم نیا، نہ ستم نیا، کہ تری جفا کا گلہ کریں
یہ نظرتھی پہلے بھی مضطرب، یہ کسک تو دل میں کبھو کی ہے

متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن


945
آج کے دن نہ پوچھو مرے دوستو
دور کتنے ہیں خوشیاں منانے کے دن
کھُل کے ہنسنے کے دن گیت گانے کے دن
پیار کرنے کے دن دل لگانے کے دن
آج کے دن نہ پوچھو مرے دوستو
زخم کتنے ابھی بختِ بسمل میں ہیں

فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن


0
1145
اس ہوس میں کہ پکارے جرسِ گل کی صدا
دشت و صحرا میں صبا پھرتی ہے یوں آوارہ
جس طرح پھرتے ہیں ہم اہلِ جنوں آوارہ
ہم پہ وارفتگیِ ہوش کی تہمت نہ دھرو
ہم کہ رمازِ رموزِ غمِ پنہانی ہیں
اپنی گردن پہ بھی ہے رشتہ فگن خاطرِ دوست

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
442
دیکھنے کی تو کسے تاب ہے لیکن اب تک
جب بھی اس راہ سے گزرو تو کسی دکھ کی کسک
ٹوکتی ہے کہ وہ دروازہ کھلا ہے اب بھی
اور اس صحن میں ہر سو یونہی پہلے کی طرح
فرشِ نومیدیِ دیدار بچھا ہے اب بھی
اور کہیں یاد کسی دل زدہ بچے کی طرح

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
457
دل رہینِ غمِ جہاں ہے آج
ہر نفس تشنۂ فغاں ہے آج
سخت ویراں ہے محفلِ ہستی
اے غمِ دوست تو کہاں ہے آج

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1093
گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا
یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا
گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دوانے
ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا
منزل کو نہ پہچانے رہِ عشق کا راہی
ناداں ہی سہی ایسا بھی سادہ تو نہیں تھا

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


0
606
پھر کوئی آیا دلِ زار نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سوگئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیے قدموں کے سراغ

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
1176
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے

فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن


3155
ستم سکھلائے گا رسمِ وفا، ایسے نہیں ہوتا
صنم دکھلائيں گے راہِ خدا، ایسے نہیں ہوتا
گنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ہیں تن کے مقتل میں
مرے قاتل حسابِ خوں بہا ، ایسے نہیں ہوتا
جہانِ دل میں کام آتی ہیں تدبیریں نہ تعزیریں
یہاں پیمانِ تسلیم و رضا ایسے نہیں ہوتا

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


3
3225
یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شبِ سست موج کا ساحل

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1
2851