ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے |
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم |
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے |
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم |
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے |
سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے |
تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی |
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی |
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی |
جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم |
ہم چلے آئے لائے جہاں تک قدم |
لب پہ حرفِ غزل دل میں قندیلِ غم |
اپنا غم تھا گواہی ترے حُسن کی |
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم |
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے |
نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی |
تیری اُلفت تو اپنی ہی تدبیر تھی |
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے |
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جاملے |
قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علم |
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے |
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم |
مختصر کر چلے درد کے فاصلے |
کر چلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم |
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم |
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے |
بحر
متدارک مثمن سالم
فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات