وہ آ کے ، خواب میں ، تسکینِ اضطراب تو دے
ولے مجھے تپشِ دل ، مجالِ خواب تو دے
کرے ہے قتل ، لگاوٹ میں تیرا رو دینا
تری طرح کوئی تیغِ نگہ کو آب تو دے
دکھا کے جنبشِ لب ہی ، تمام کر ہم کو
نہ دے جو بوسہ ، تو منہ سے کہیں جواب تو دے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
731
چاک کی خواہش ، اگر وحشت بہ عریانی کرے
صبح کے مانند ، زخمِ دل گریبانی کرے
جلوے کا تیرے وہ عالم ہے کہ ، گر کیجے خیال
دیدۂ دل کو زیارت گاہِ حیرانی کرے
ہے شکستن سے بھی دل نومید ، یا رب! کب تلک
آب گینہ کوہ پر عرضِ گِراں جانی کرے

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
383
نکتہ چیں ہے ، غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات ، جہاں بات بنائے نہ بنے
میں بلاتا تو ہوں اس کو ، مگر اے جذبۂ دل
اس پہ بن جائے کُچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے
کھیل سمجھا ہے ، کہیں چھوڑ نہ دے ، بھول نہ جائے
کاش! یوں بھی ہو کہ بن میرے ستائے نہ بنے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
749
ہر قدم دوریٔ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے ، بیاباں مجھ سے
درسِ عنوانِ تماشا ، بہ تغافل خوش تر
ہے نگہ رشتۂ شیرازۂ مژگاں مجھ سے
وحشتِ آتشِ دل سے ، شبِ تنہائی میں
صورتِ دود ، رہا سایہ گریزاں مجھ سے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
911
چاہیے اچھوں کو ، جتنا چاہیے
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے
صحبتِ رنداں سے واجب ہے حَذر
جائے مے ، اپنے کو کھینچا چاہیے
چاہنے کو تیرے کیا سمجھا تھا دل؟
بارے اب اس سے بھی سمجھا چاہیے!

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
1829
ہے وصل ہجر عالمِ تمکین و ضبط میں
معشوقِ شوخ و عاشقِ دیوانہ چاہیے
اُس لب سے مل ہی جاۓ گا بوسہ کبھی تو، ہاں!
شوقِ فضول و جرأتِ رندانہ چاہیے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
433
سیماب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے ہم
حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار کے
آغوشِ گل کشودہ برائے وداع ہے
اے عندلیب چل! کہ چلے دن بہار کے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
212
جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
لکھ دیجیو یا رب اسے قسمت میں عدو کی
اچھا ہے سر انگشتِ حنائی کا تصور
دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی
کیوں ڈرتے ہو عشاق کی بے حوصلگی سے
یاں تو کوئی سنتا نہیں فریاد کسو کی

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


0
395
گلشن کو تری صحبت از بسکہ خوش آئی ہے
ہر غنچے کا گل ہونا آغوش کشائی ہے
واں کنگرِ استغنا ہر دم ہے بلندی پر
یاں نالے کو اور الٹا دعوائے رسائی ہے
از بسکہ سکھاتا ہے غم ضبط کے اندازے
جو داغ نظر آیا اک چشم نمائی ہے

مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن


1
705
نقشِ نازِ بتِ طناز بہ آغوشِ رقیب
پائے طاؤس پئے خامۂ مانی مانگے
تو وہ بد خو کہ تحیر کو تماشا جانے
غم وہ افسانہ کہ آشفتہ بیانی مانگے
وہ تبِ عشق تمنا ہے کہ پھر صورتِ شمع
شعلہ تا نبضِ جگر ریشہ دوانی مانگے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
745
اے جہاں زاد، ​نشاط اس شبِ بے راہ روی کی​
میں کہاں تک بھولوں؟​
زور ِ مَے تھا،
کہ مرے ہاتھ کی لرزش
تھی ​کہ اس رات کوئی جام گرا ٹوٹ گیا
تجھے حیرت نہ ہوئی!​

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


2544
جہاں زاد،
وہ حلب کی کارواں سرا کا حوض، رات وہ سکوت
جس میں ایک دوسرے سے ہم کنار تیرتے رہے
محیط جس طرح ہو دائرے کے گرد حلقہ زن
تمام رات تیرتے رہے تھے ہم
ہم ایک دوسرے کے جسم و جاں سے لگ کے

مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن


2636
جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے
یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں
تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطّار یوسف
کی دکّان پر میں نے دیکھا
تو تیری نگاہوں میں وہ تابناکی
تھی میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں

فَعُولن فَعُولن فَعُولن


1934
کب وہ سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری
خلشِ غمزۂ خوں ریز نہ پوچھ
دیکھ خوں نابہ فشانی میری
کیا بیاں کر کے مرا روئیں گے یار
مگر آشفتہ بیانی میری

فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
1024
غنچۂ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا، کہ یُوں
بوسے کو پُوچھتا ہوں مَیں، منہ سے مجھے بتا کہ یُوں
پُرسشِ طرزِ دلبری کیجئے کیا؟ کہ بن کہے
اُس کے ہر اک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یُوں
رات کے وقت مَے پیے ساتھ رقیب کو لیے
آئے وہ یاں خدا کرے، پر نہ خدا کرے کہ یُوں

مفتَعِلن مفاعِلن مفتَعِلن مفاعِلن


0
728
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں؟
روئیں گے ہم ہزار بار ۔کوئی ہمیں ستائے کیوں؟
دَیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم، غیر * ہمیں اُٹھائے کیوں؟
جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز ۔پردے میں منہ چھپائے کیوں؟

مفتَعِلن مفاعِلن مفتَعِلن مفاعِلن


0
1135
مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
سوائے خونِ جگر، سو جگر میں خاک نہیں
مگر غبار ہُوے پر ہَوا اُڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں
یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے؟
کہ غیرِ جلوۂ گُل رہ گزر میں خاک نہیں

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
626
نہیں ہے زخم کوئی بخیے کے درخُور مرے تن میں
ہُوا ہے تارِ اشکِ یاس، رشتہ چشمِ سوزن میں
ہُوئی ہے مانعِ ذوقِ تماشا، خانہ ویرانی
کفِ سیلاب باقی ہے برنگِ پنبہ روزن میں
ودیعت خانۂ بے دادِ کاوش ہائے مژگاں ہوں
نگینِ نامِ شاہد ہے مرا ہر قطرہ خوں تن میں

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
291
دیوانگی سے دوش پہ زنّار بھی نہیں
یعنی ہمارے* جیب میں اک تار بھی نہیں
دل کو نیازِ حسرتِ دیدار کر چکے
دیکھا تو ہم میں طاقتِ دیدار بھی نہیں
ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے
دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
1139
سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں!
یاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں
تھیں بنات النعشِ گردوں دن کو پردے میں نہاں
شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
489