جہاں زاد، |
وہ حلب کی کارواں سرا کا حوض، رات وہ سکوت |
جس میں ایک دوسرے سے ہم کنار تیرتے رہے |
محیط جس طرح ہو دائرے کے گرد حلقہ زن |
تمام رات تیرتے رہے تھے ہم |
ہم ایک دوسرے کے جسم و جاں سے لگ کے |
تیرتے رہے تھے ایک شاد کام خوف سے |
کہ جیسے پانی آنسوؤں میں تیرتا رہے |
ہم ایک دوسرے سے مطمئن زوالِ عمر کے خلاف |
تیَرتے رہے |
تو کہہ اٹھی حَسَن یہاں بھی کھینچ لائی |
جاں کی تشنگی تجھے |
لو اپنی جاں کی تشنگی کو یاد کر رہا تھا مَیں |
کہ میرا حلق آنسوؤں کی بے بہا سخاوتوں |
سے شاد کام ہو گیا |
مگر یہ وہم دل میں تَیرنے لگا کہ ہو نہ ہو |
مرا بدن کہیں حلب کے حوض ہی میں رہ گیا |
نہیں، مجھے دوئی کا واہمہ نہیں |
کہ اب بھی ربطِ جسم و جاں کا اعتبار ہے مجھے |
یہی وہ اعتبار تھا |
کہ جس نے مجھ کو آپ میں سمو دیا |
مَیں سب سے پہلےآپ ہُوں |
اگر ہمیں ہوں تُو ہو او مَیں ہوں پھر بھی مَیں |
ہر ایک شے سے پہلے آپ ہوں! |
اگر مَیں زندہ ہوں تو کیسے آپ سے دغا کروں؟ |
کہ تیری جیسی عورتیں، جہاں زاد، |
ایسی الجھنیں ہیں |
جن کو آج تک کوئی نہیں سلجھ سکا |
جو مَیں کہوں کہ مَیں سلجھ سکا تو سر بسر |
فریب اپنے آپ سے! |
کہ عورتوں کی وہ ساخت ہے وہ طنز اپنے آپ پر |
جواب جس کا ہم نہیں |
(لبیب کون ہے؟ تمام رات جس کا ذکر |
تیرے لب پہ تھا |
وہ کون تیرے گیسوؤں کو کھینچتا رہا |
لبوں کو نوچتا رہا |
جو مَیں کبھی نہ کر سکا |
نہیں یہ سچ ہے میں ہوں یا لبیب ہو |
رقیب ہو تو کس لیے تری خود آگہی کی بے ریا نشاطِ ناب کا |
جو صدا نوا و یک نوا خرام ِ صبح کی طرح |
لبیب ہر نوائے سازگار کی نفی سہی! |
مگر ہمارا رابطہ وصالِ آب و گِل نہیں، نہ تھا کبھی |
وجودِ آدمی سے آب و گِل سدا بروں رہے |
نہ ہر وصالِ آب و گِل سے کوئی جام یا سبو ہی نہ بن سکا |
جو اِن کا ایک واہمہ ہی بن سکے تو بن سکے! |
جہاں زاد، |
ایک تو اور ایک وہ اور ایک مَیں |
یہ تین زاویے کسی مثلثِ قدیم کے |
ہمیشہ گھومتے رہے |
کہ جیسے میرا چاک گھومتا رہا |
مگر نہ اپنے آپ کا کوئی سراغ پا سکے |
مثلثِ قدیم کو مَیں توڑ دوں، جو تو کہے، مگر نہیں |
جو سحر مجھ پہ چاک کا وہی ہے اِس مثلثِ قدیم کا |
نگاہیں میرے چاک کی جو مجھ کو دیکھتی ہیں |
گھومتے ہوئے |
سبو و جام پر ترا بدن، ترا ہی رنگ، تیری نازکی |
برس پڑی |
وہ کیمیا گری ترے جمال کی برس پڑی |
مَیں سَیل ِ نُور ِ اندروں سے دھُل گیا! |
مرے دروں کی خلق یوں گلی گلی نکل پڑی |
کہ جیسے صبح کی اذاں سنائی دی! |
تمام کوزے بنتے بنتے تو ہی بن کے رہ گئے |
نشاط اِس وصالِ رہ گزر کی ناگہاں مجھے نگل گئی |
یہی پیالہ و صراحی و سبو کا مرحلہ ہے وہ |
کہ جب خمیر ِ آب و گِل سے وہ جدا ہوئے |
تو اُن کو سمتِ راہِ نَو کی کامرانیاں ملیں |
مَیں ایک غریب کوزہ گر |
یہ انتہائے معرفت |
یہ ہر پیالہ و صراحی و سبو کی انتہائے معرفت |
مجھے ہو اس کی کیا خبرِ؟ |
جہاں زاد، |
انتظار آج بھی مجھے ہی کیوں وہی مگر |
جو نو برس کے دور ِ نا سزا میں تھا؟ |
اب انتظار آنسوؤں کے دجلہ کا |
نہ گمرہی کی رات کا |
شبِ گُنہ کی لذّتوں کا اتنا ذکر کر چکا |
وہ خود گناہ بن گئیں! |
حلب کی کارواں سرا کے حوض کا، نہ موت کا |
نہ اپنی اس شکست خوردہ ذات کا |
اِک انتظار ِ بے زماں کا تار ہے بندھا ہوا! |
کبھی جو چند ثانیے زمانِ بے زماں میں آکے رک گئے |
تو وقت کا یہ بار میرے سر سے بھی اُتر گیا |
تمام رفتہ و گزشتہ صورتوں، تمام حادثوں |
کے سست قافلے |
مِرے دروں میں جاگ اُٹھے |
مرے دروں میں اِک جہانِ بازیافتہ کی ریل پیل جاگ اُٹھی |
بہشت جیسے جاگ آُٹھے خدا کے لا شعور میں! |
مَیں جاگ اٹھا غنودگی کی ریت پر پڑا ہُوا |
غنودگی کی ریت پر پڑے ہوئے وہ کوزے جو |
مرے وجود سے بروں |
تمام ریزہ ریزہ ہو کے رہ گئے تھے |
میرے اپنے آپ سے فراق میں، |
وہ پھر سے ایک کُل بنے کسی نوائے ساز گار کی طرح |
وہ پھر سے ایک رقص ِ بے زماں بنے |
وہ روئتِ ازل بنے! |
بحر
ہزج مثمن مقبوض
مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات