منظُور ہے گُزارشِ احوالِ واقعی
اپنا بیانِ حُسنِ طبیعت نہیں مجھے
سَو پُشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے
آزادہ رَو ہوں اور مِرا مسلک ہے صلحِ کُل
ہر گز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
477
چرخ تک دھوم ہے، کس دھوم سے آیا سہرا
چاند کا دائرہ لے، زہرہ نے گایا سہرا
رشک سے لڑتی ہیں آپس میں اُلجھ کر لڑیاں
باندھنے کے لیے جب سر پہ اُٹھایا سہرا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
384
ہم نشیں تارے ہیں، اور چاند شہاب الدیں خاں
بزمِ شادی ہے فلک، کاہکشاں ہے سہرا
ان کو لڑیاں نہ کہو، بحر کی موجیں سمجھو
ہے تو کشتی میں، ولے بحرِ رواں ہے سہرا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
268
خوش ہو اَے بخت کہ ہے آج تِرے سر سہرا
باندھ شہزادہ جواں بخت کے سر پر سہرا
کیا ہی اِس چاند سے مُکھڑے پہ بھلا لگتا ہے!
ہے تِرے حُسنِ دل افروز کا زیور سہرا
سر پہ چڑھنا تجھے پھبتا ہے پر اے طرفِ کُلاہ
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے تِرا لمبر سہرا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
949
سلام اسے کہ اگر بادشہ کہیں اُس کو
تو پھر کہیں کچھ اِس سے سوا کہیں اُس کو
نہ بادشاہ نہ سلطاں یہ کیا ستائش ہے
کہو کہ خامسِ آلِ عبا کہیں اُس کو
خدا کی راہ میں شاہی و خسروی کیسی؟
کہو کہ رہبرِ راہِ خدا کہیں اُس کو

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


2486
ہاں! اے نفسِ بادِ سحر شعلہ فشاں ہو
اے دجلۂ خوں! چشمِ ملائک سے رواں ہو
اے زمزمۂ قُم! لبِ عیسیٰ پہ فغاں ہو
اے ماتمیانِ شہِ مظلوم! کہاں ہو
بگڑی ہے بہت بات، بنائے نہیں بنتی
اب گھر کو بغیر آگ لگائے نہیں بنتی

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


0
479
گھستے گھستے پاؤں کی زنجیر آدھی رہ گئی
مر گئے پر قبر کی تعمیر آدھی رہ گئی
سب ہی پڑھتا کاش، کیوں تکبیر آدھی رہ گئی
"کھنچ کے، قاتل! جب تری شمشیر آدھی رہ گئی
غم سے جانِ عاشقِ دل گیر آدھی رہ گئی"
بیٹھ رہتا لے کے چشمِ پُر نم اس کے روبروُ

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


802
دیا ہے دل اگر اُس کو ، بشر ہے ، کیا کہیے
ہوا رقیب ، تو ہو ، نامہ بر ہے ، کیا کہیے
یہ ضد کہ آج نہ آوے ، اور آئے بِن نہ رہے
قضا سے شکوہ ہمیں کس قدر ہے ، کیا کہیے!
رہے ہے یوں گہ و بے گہ ، کہ کوئے دوست کو اب
اگر نہ کہیے کہ دشمن کا گھر ہے ، کیا کہیے!

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
1161
کیوں نہ ہو چشمِ بتاں محوِ تغافل ، کیوں نہ ہو؟
یعنی اس بیمار کو نظارے سے پرہیز ہے
مرتے مرتے ، دیکھنے کی آرزو رہ جائے گی
وائے ناکامی ! کہ اس کافر کا خنجر تیز ہے
عارضِ گل دیکھ ، رُوئے یار یاد آیا ، اسدؔ!
جوششِ فصلِ بہاری اشتیاق انگیز ہے

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
391
کرے ہے بادہ ، ترے لب سے ، کسبِ رنگِ فروغ
خطِ پیالہ ، سراسر نگاہِ گل چیں ہے
کبھی تو اِس سرِ شوریدہ کی بھی داد ملے!
کہ ایک عمر سے حسرت پرستِ بالیں ہے
بجا ہے ، گر نہ سنے ، نالہ ہائے بلبلِ زار
کہ گوشِ گل ، نمِ شبنم سے پنبہ آگیں ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
565
ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
مرتے ہیں ، ولے ، اُن کی تمنا نہیں کرتے
در پردہ اُنھیں غیر سے ہے ربطِ نہانی
ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ پردہ نہیں کرتے
یہ باعثِ نومیدیِ اربابِ ہوس ہے
غالبؔ کو بُرا کہتے ہو ، اچھا نہیں کرتے

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


0
970
نہ پُوچھ نسخۂ مرہم جراحتِ دل کا
کہ اس میں ریزۂ الماس جزوِ اعظم ہے
بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
وہ اک نگہ کہ ، بظاہر نگاہ سے کم ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
448
رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے
کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
جو ظرف کہ خالی ہو صدا دیتا ہے

1279
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
نالہ پابندِ نے نہیں ہے
کیوں بوتے ہیں باغبان تونبے؟
گر باغ گدائے مے نہیں ہے
ہر چند ہر ایک شے میں تو ہے
پر تجھ سی کوئی شے نہیں ہے

مفعول مفاعِلن فَعُولن


0
4337
خطر ہے رشتۂ الفت رگِ گردن نہ ہو جائے
غرورِ دوستی آفت ہے ، تو دشمن نہ ہو جائے
سمجھ اس فصل میں کوتاہیٔ نشو و نما ، غالبؔ!
اگر گل سرو کے قامت پہ ، پیراہن نہ ہو جائے

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
233
تپش سے میری ، وقفِ کشمکش ، ہر تارِ بستر ہے
مرا سر رنجِ بالیں ہے ، مرا تن بارِ بستر ہے
سرشکِ سر بہ صحرا دادہ ، نورُ العینِ دامن ہے
دلِ بے دست و پا افتادہ بر خور دارِ بستر ہے
خوشا اقبالِ رنجوری ! عیادت کو تم آئے ہو
فروغِ شمع بالیں ، طالعِ بیدارِ بستر ہے

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


459
وہ آ کے ، خواب میں ، تسکینِ اضطراب تو دے
ولے مجھے تپشِ دل ، مجالِ خواب تو دے
کرے ہے قتل ، لگاوٹ میں تیرا رو دینا
تری طرح کوئی تیغِ نگہ کو آب تو دے
دکھا کے جنبشِ لب ہی ، تمام کر ہم کو
نہ دے جو بوسہ ، تو منہ سے کہیں جواب تو دے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
860
چاک کی خواہش ، اگر وحشت بہ عریانی کرے
صبح کے مانند ، زخمِ دل گریبانی کرے
جلوے کا تیرے وہ عالم ہے کہ ، گر کیجے خیال
دیدۂ دل کو زیارت گاہِ حیرانی کرے
ہے شکستن سے بھی دل نومید ، یا رب! کب تلک
آب گینہ کوہ پر عرضِ گِراں جانی کرے

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
435
نکتہ چیں ہے ، غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات ، جہاں بات بنائے نہ بنے
میں بلاتا تو ہوں اس کو ، مگر اے جذبۂ دل
اس پہ بن جائے کُچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے
کھیل سمجھا ہے ، کہیں چھوڑ نہ دے ، بھول نہ جائے
کاش! یوں بھی ہو کہ بن میرے ستائے نہ بنے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
848
ہر قدم دوریٔ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے ، بیاباں مجھ سے
درسِ عنوانِ تماشا ، بہ تغافل خوش تر
ہے نگہ رشتۂ شیرازۂ مژگاں مجھ سے
وحشتِ آتشِ دل سے ، شبِ تنہائی میں
صورتِ دود ، رہا سایہ گریزاں مجھ سے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
1152