آفت آہنگ ہے کچھ نالۂ بلبل ورنہ
پھول ہنس ہنس کے گلستاں میں فنا ہو جاتا
کاش ناقدر نہ ہوتا ترا اندازِ خرام
میں غبارِ سرِ دامانِ فنا ہو جاتا
یک شبہ فرصتِ ہستی ہے اک آئینۂ غم
رنگِ گل کاش! گلستاں کی ہَوا ہو جاتا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


394
آئی اگر بلا تو جگر سے ٹلی نہیں
ایرا ہی دے کے ہم نے بچایا ہے کِشت کو

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
297
ہلاکِ بے خبری نغمۂ وجود و عدم
جہان و اہلِ جہاں سے جہاں جہاں فریاد

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
332
گوڑگانویں کی ہے جتنی رعیّت، وہ یک قلم
عاشق ہے اپنے حاکمِ عادل کے نام کی
سو یہ نظر فروز قلمدان نذر ہے
مسٹر کووان صاحبِ عالی مقام کی

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
227
اے جہاں آفریں خدائے کریم
ضائعِ ہفت چرخ، ہفت اقلیم
نام مکلوڈ جن کا ہے مشہور
یہ ہمیشہ بصد نشاط و سرور
عمرو دولت سے شادمان رہیں
اور غالبؔ پہ مہربان رہیں

فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
302
ایک اہلِ درد نے سنسان جو دیکھا قفس
یوں کہا آتی نہیں اب کیوں صدائے عندلیب؟
بال و پر دو چار دکھلا کر کہا صیّاد نے
یہ نشانی رہ گئی ہے اب بجائے عندلیب

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
617
گو ایک بادشاہ کے سب خانہ زاد ہیں
درباردار لوگ بہم آشنا نہیں
کانوں پہ ہاتھ دھرتے ہیں کرتے ہوئے سلام
اس سے مُراد یہ ہے کہ ہم آشنا نہیں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
253
سہل تھا مُسہل ولے یہ سخت مُشکل آ پڑی
مجھ پہ کیا گُزرے گی، اتنے روز حاضر بِن ہوئے
تین دن مسہل سے پہلے، تین دن مسہل کے بعد
تین مُسہل، تین تَبریدیں، یہ سب کَے دِن ہوئے؟

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
221
سیہ گلیم ہوں لازم ہے میرا نام نہ لے
جہاں میں جو کوئی فتح و ظفر کا طالب ہے
ہوا نہ غلبہ میسر کبھی کسی پہ مجھے
کہ جو شریک ہو میرا، شریکِ غالبؔ ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
351
اِس کتابِ طرب نصاب نے جب
آب و تاب انطباع کی پائی
فکرِ تاریخِ سال میں، مجھ کو
ایک صورت نئی نظر آئی
ہندسے پہلے سات سات کے دو
دیے ناگاہ مجھ کو دکھلائی

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
520
ہوئی جب میرزا جعفر کی شادی
ہوا بزمِ طرب میں رقصِ ناہید
کہا غالبؔ سے "تاریخ اس کی کیا ہے؟"
تو بولا " اِنشراحِ جشنِ جمشید

مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن


0
512
خُجستہ انجمنِ طُوئے میرزا جعفر
کہ جس کے دیکھے سے سب کا ہوا ہے جی محظوظ
ہوئی ہے ایسے ہی فرخندہ سال میں غالبؔ
نہ کیوں ہو مادۂ سالِ عیسوی "محظوظ"

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
230
اٹھا اک دن بگولا سا جو کچھ میں جوشِ وحشت میں
پھرا آسیمہ سر، گھبرا گیا تھا جی بیاباں سے
نظر آیا مجھے اک طائرِ مجروح پَر بستہ
ٹپکتا تھا سرِ شوریدہ دیوارِ گلستاں سے
کہا میں نے کہ "او گمنام! آخر ماجرا کیا ہے
پڑا ہے کام تجھ کو کس ستم گر آفتِ جاں سے"

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
420
افطارِ صوم کی جسے کچھ دستگاہ ہو
اُس شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے
جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
733
ہے چار شنبہ آخرِ ماہِ صَفَر چلو
رکھ دیں چمن میں بھر کے مئے مُشک بُو کی ناند
جو آئے، جام بھر کے پیے، اور ہو کے مست
سبزے کو رَوندتا پھرے، پُھولوں کو جائے پھاند
غالبؔ یہ کیا بیاں ہے، بجُز مدحِ پادشاہ
بھاتی نہیں ہے اب مجھے کوئی نوشتِ خواند

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
243
نہ پُوچھ اِس کی حقیقت، حُضُورِ والا نے
مجھے جو بھیجی ہے بیسن کی رَوغَنی روٹی
نہ کھاتے گیہوں، نکلتے نہ خُلد سے باہر
جو کھاتے حضرتِ آدم یہ بیسَنی روٹی

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
479
ہے جو صاحب کے کفِ دست پہ یہ چکنی ڈلی
زیب دیتا ہے اسے جس قدر اچھّا کہیے
خامہ انگشت بہ دنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے
مُہرِ مکتوبِ عزیزانِ گرامی لکھیے
حرزِ بازوئے شگرفانِ خود آرا کہیے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
797
کلکتہ کا جو ذکر کیا تُو نے ہم نشیں!
اِک تِیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
وہ سبزہ زار ہائے مُطرّا کہ، ہے غضب!
وُہ نازنیں بُتانِ خود آرا کہ ہائے ہائے!
صبر آزما وہ اُن کی نگاہیں کہ حف نظر!
طاقت رُبا وہ اُن کا اشارا کہ ہائے ہائے!

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
591
گئے وہ دن کہ نا دانستہ غیروں کی وفا داری
کیا کرتے تھے تم تقریر، ہم خاموش رہتے تھے
بس اب بگڑے پہ کیا شرمندگی، جانے دو، مل جاؤ
قَسم لو ہم سے گر یہ بھی کہیں کیوں ہم نہ کہتے تھے

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
488
اے شہنشاہِ فلک منظرِ بے مثل و نظیر
اے جہاندارِ کرم شیوۂ بے شبہ و عدیل
پاؤں سے تیرے مَلے فرقِ ارادتِ ا ورنگ
فرق سے تیرے کرے کسبِ سعادت اِکلیل
تیرا اندازِ سُخَن شانۂ زُلفِ اِلہام
تیری رفتارِ قلم جُنبشِ بالِ جبریل

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
701