Circle Image

ملک حسیب علی

@ha5405983

اُس تک پہنچے لاچار تھے ہم

اس کے نہ آنے کو بیٹھ گئے
رات بنانے کو بیٹھ گئے
ایک شجر ملا دشت میں، ہم
سینے لگانے کو بیٹھ گئے
پچپنا اب بھی ہے باقی کہیں
شور مچانے کو بیٹھ گئے

0
2
انہیں ہے خوف میں گاؤں کو چھوڑ آنا ہے
زمیں کے سارے خُداؤں کو چھوڑ آنا ہے
ہے تنگ دل سے گوارا، اگر نظر سے ہوا
اُسے، میں اسکی وفاؤں کو چھوڑ آنا ہے
اداس رہنے لگے ہیں فلک کے باسی وہاں
اِسی لِئے مَیں خلاؤں کو چھوڑ آنا ہے

0
6
غم ایک عشق بھی ہے بتایا نہ کیجئے
اس خواب گاہ سے یوں اٹھایا نہ کیجئے
کاخِ جبینِ یار سے آئی ہے التجا
یوں دیکھ کر تو حشر اٹھایا نہ کیجئے
عشوہ کریں ہیں سامنے وہ روز روز ہی
اس پر گلہ ہمیں سے یوں آیا نہ کیجئے

0
14
کاخِ جبینِ یار سے آئی ہے التجا
سوچا نہ کیجئے ہمیں دیکھا نہ کیجئے
عشوہ کریں ہیں سامنے وہ روز روز ہی
اس پر گلہ ہمیں سے یوں آیا نہ کیجئے
راتوں کے خوف میں وہ کہے تھے یہ ایک دن
تارو یوں آسمان پہ چھایا نہ کیجئے

0
5
کسی کردار میں خود کو سمانا چاہتا ہوں میں
لگی ہے آگ دامن میں بجھانا چاہتا ہوں میں
میں نے خورشید سے نکلی حرارت ماپ لی لیکن
غمِ دل کی پیمائش کا پیمانہ چاہتا ہوں میں
کبھی ہوں آبلہ پا تو کبھی زنجیر میں جکڑا
ستم اس عشق کہ پھر بھی اُٹھانا چاہتا ہوں میں

0
16
اس ہم نفس خاطر سہارے رکھ دئے
سب غم سمندر کہ کنارے رکھ دئے
اُس نے دیے کی مانگ کی ہم سے فقط
ہم نے دریچے میں ستارے رکھ دئے
اُس پارسا پہ آئے نا کوئی حرف
گُفتگو میں بھی اِشارے رکھ دئے

0
11
اتالیقو بتاو کب ہمارا حال بدلے گا
جہالت چھوڑ کر یہ کب زمانہ چال بدلے گا

86
شایانِ شان نہیں ہے کہ اجل آئے جُھکا دیں سر
تیری ظالم اداوں پہ تو پھر کیسے کٹا دیں سر

114
آزادی کہاں ہے؟ مجھے یقین ہے کے کچھ لوگ اسے دیکھتے ہی آگے نکل جائیں گے کیونکہ انہیں وقت نے غلام بنا رکھا ہے لیکن پھر بھی چونکہ میں وقت سے کچھ آزادی حاصل کی یے تو میں اپنی بات مکمل کئے دیتا ہوںآج ۱۴ اگست ہے اور ہر طرف جشنِ آزادی منایا جا رہا ہے میں جس طرف بھی نظر دوڑا رہا ہوں یہی سننے اور دیکھنے کو مل رہا ہے کے جی آج جشنِ آزادی ہے آج کے دن ہم آزاد ہوئے تھے لیکن ساتھ ہی کچھ سوال دل میں گھر کیے جا رہے ہیں کے آزادی کہاں ہے؟ کیا یہ وہی درخت ہے جس کے پروان چڑھنے کے لیے لاکھوں لوگوں نے اپنی جان کا نظرانہ پیش کیا؟ ہم کس قسم کے ازاد ہیں ؟ کیا یہ واقعی آزادی ہے؟تو آئے اس پر تھوڑا سا تبصرہ کرتے ہیں آگے بڑھنے سے پہلے میں یہاں کچھ کہنا چاہوں گا کہ یہ زنجیریں پہنے بدن پہ ہوئے ہیںکہ غلام اب ہم اپنے وطن کے ہوئے ہیںشاعر : ملک حسیب علیآج چہترواں (74) جشنِ آزادی منایا جا رہا ہے لیکن ہم آج بھی غلام ہیں یقیناً یہ بات کچھ لوگوں ضرور کو ناگوار گزرے گی لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے پہلے ہم انگریزوں کے غلام تھے ان سے آزادی حاصل کی اور ایک الگ آزاد مملکت قائم کی اور کچھ دیر یہ سلسلہ آزادی بہت اچھا چلتا رہا پھرجب عظیم راہنما اس دا

1
89
مرشد آپ ہیں رونق میری
مرشد آپ سے دوری توبہ

74
لمحے وہ جو گزرے تھے نا
صدیاں بیتی پھر نا آئے

93