انہیں ہے خوف میں گاؤں کو چھوڑ آنا ہے
زمیں کے سارے خُداؤں کو چھوڑ آنا ہے
ہے تنگ دل سے گوارا، اگر نظر سے ہوا
اُسے، میں اسکی وفاؤں کو چھوڑ آنا ہے
اداس رہنے لگے ہیں فلک کے باسی وہاں
اِسی لِئے مَیں خلاؤں کو چھوڑ آنا ہے
ابھی پرندے ہیں چھوٹے جب انکے پر یارو
نکل پڑیں گے تو ماؤں کو چھوڑ آنا ہے
ابھی خبر نہیں ان کو حسیب راہوں کی
کہ عشق ہو لے اناؤں کو چھوڑ آنا ہے

0
19