جب سے ملا ہے مجھ کو وہ اک گُل سرِ چمن
بھولا ہوا ہوں یار میں تب سے مرا وطن
منظر سے چوکڑیاں وہ بھرتا گزر گیا
مجھ کو لگا کہ پاس سے گُزرا ہے اک ہِرَن
شب ایک کے وصال میں دن دوسرے کے ساتھ
اچھا نہیں ہے یار زمانے میں یہ چَلَن
چہرہ وہ کونپلوں سا ہے دل پنکھڑی کوئی
تحقیق یہ کہ شخص وہ پورا ہے گُل بدن
غم چاند کو گرہن میں تھوڑے سے دے گیا
سورج کا قمر سے تھا ضروری وہ اک ملن
اک دیگ کھا گئے ہیں اکیلے جناب اور
اس پر یہ کہہ رہے ہیں کہ معدے میں ہے جَلَن
اک شخص کر رہا تھا تجارت امیر سے
کچھ کھانے کو مجھے دے دو، دینا نہ تم کَفَن

0
13