رنج خوش طبع لحافوں میں بَسے دیکھ نہ پائیں
اتنے اچھے نہ بنیں آپ، بُرے دیکھ نہ پائیں
آنکھیں جل جائیں اوائل میں سبھی زود حِسوں کی
کس کے کتنے ہیں عزادار جلے دیکھ نہ پائیں
اتنی سُستی ہے کہ لمحے میں مقید ہیں ازل سے
اتنی عجلت ہے کہ اک بار سمے دیکھ نہ پائیں
اے خدا چشمِ رقیباں نہ کہیں مار دے مجھ کو
کتنا اچھا ہو کہ کچھ لوگ مجھے دیکھ نہ پائیں
ہم نے اک خواب میں پھر موت کو محسوس کِیا ہے
اتنے لاچار ہیں خود ہاتھ اٹھے دیکھ نہ پائیں
یہ اشارہ ہے حسد دل میں قدم رکھنے لگا ہے
آپ گر قرب کے سب باغ ہرے دیکھ نہ پائیں
ایسا کرتے ہیں کہ دستار بچھاتے ہیں زمیں پر
سر کٹاتے ہیں کہ سردار کٹے دیکھ نہ پائیں
آگہی ایسی کہ ہر چیز دکھائی دے پسِ پشت
اور بے چہرگی ایسی کہ تجھے دیکھ نہ پائیں

10