آزادی کہاں ہے؟

 

مجھے یقین ہے کے کچھ لوگ اسے دیکھتے ہی آگے نکل جائیں گے کیونکہ انہیں وقت نے غلام بنا رکھا ہے لیکن پھر بھی چونکہ میں وقت سے کچھ آزادی حاصل کی یے تو میں اپنی بات مکمل کئے دیتا ہوں


آج ۱۴ اگست ہے اور ہر طرف جشنِ آزادی منایا جا رہا ہے میں جس طرف بھی نظر دوڑا رہا ہوں یہی سننے اور دیکھنے کو مل رہا ہے کے جی آج جشنِ آزادی ہے آج کے دن ہم آزاد ہوئے تھے لیکن ساتھ ہی کچھ سوال دل میں گھر کیے جا رہے ہیں کے آزادی کہاں ہے؟ کیا یہ وہی درخت ہے جس کے پروان چڑھنے کے لیے لاکھوں لوگوں نے اپنی جان کا نظرانہ پیش کیا؟ ہم کس قسم کے ازاد ہیں ؟ کیا یہ واقعی آزادی ہے؟

تو آئے اس پر تھوڑا سا تبصرہ کرتے ہیں آگے بڑھنے سے پہلے میں یہاں کچھ کہنا چاہوں گا


 کہ یہ زنجیریں پہنے بدن پہ ہوئے ہیں

کہ غلام اب ہم اپنے وطن کے ہوئے ہیں

شاعر ملک حسیب علی


آج چہترواں (74) جشنِ آزادی منایا جا رہا ہے لیکن ہم آج بھی غلام ہیں یقیناً یہ بات کچھ لوگوں ضرور کو ناگوار گزرے گی لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے پہلے ہم انگریزوں کے غلام تھے ان سے آزادی حاصل کی اور ایک الگ آزاد مملکت قائم کی اور کچھ دیر یہ سلسلہ آزادی بہت اچھا چلتا رہا پھرجب عظیم راہنما اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے تو پھر ایک نیا آزاد دورِ غلامی شروع ہوا جس میں پہلے ہم غلام ہوئے جاگیرداروں کے پھر سرمایہ داروں کے اور اب عہدیداروں کے اور یوں یہ سلسلہ بتدریج آگے بڑھ رہا ہے اور اچنبے کی بات یہ ہے کہ کوئی اس پہ سوچ بچار کرنا ہی نہیں چاہ رہا کیونکہ یہ صرف ایک ہی چیز نہیں پے جس کے ہم غلام ہیں ہماری سوچ اعر اعمال بھی غلامی کا شکار ہوچکے ہیں مفلس دولت کا غلام ہے انصاف دولت کا غلام ہے نوکریاں دولت (رشوت) کی غلام ہیں غریب امیر کا غلام ہے اوع ہم اس غلامی کے اتنے عقدی ہوچکے ہیں کے ہمیں کچھ فرق ہی نہیں پڑتا کے ہمارے ارد گر کیا ہورہا ہے کیونکہ ہم خُد کے غلام ہوچکے ہیں ہماری خوشیاں اور ہمارے مزاج بھی غلام ہوچکے ہیں ہم کسی خاص شخص سے بات کرنے پہ خوش ہوتے ہیں اوع ہمارا مزاج ہر بات پہ ایسے بدلتا ہے جیسے مزاج نہیں کوئی گرگٹ ہو کہ جس چیز پہ بیٹھا اس سا ہوگیا یہاں اس مملکت جس کا نام *اسلامی جمہوریہ پاکستان* ہے جس کی بنیاد اسلام پہ رکھی گئی وہاں انصاف کوٹ کچہڑی،سوشل میڈیا پہ خوار ہوتا ہے اور اتنا خوار ہوتا ہے کیے آخر کار دم توڑ دیتا کے اور یقین کریں کسی کو کچھ فرق نہیں پڑتا اگر یقین نا آئے تو آسیہ ملعونا اور زینب کیس ہی دیکھ لیں اور یہ تو وہ معاملے ہیں جو منظرِ عام پہ آئے اور انصاف کھڑا تماشہ دیکھتا رہا اور حال میں ہونے والی فرانسیسی گستاخی کو ہی دیکھیں کیا کِیا گیا کچھ نہیں الٹا اپنے ہی لوگوں کو پکڑ کر بند کر دیا گیا تو کیا اسے آپ آزادی کہنا پسند کریں گے؟? کیا واقعی یہ آزادی ہے؟ اچھا یہ تو تھی اجتماعی مثال اب کچھ انفرادیت کی طرف آتے ہیں کے ہم انفرادی طور پہ بھی غلامی کا شکار ہیں ہماری نوجوان نسل کو بہت ہی سوچی سمجھی چالوں کے تحت موبائل فون اور انٹرنیٹ کا غلام بنا دیا گیا ہے پہلے بہت پرکشش اشتہارات لگا کے ان چیزوں کی طرف مائل کیا جاتا ہے اور پھر کہا جاتا ہے کے ہماری نوجوان نسل اس طرف چل دی ہے ہم لوگ موبائل کے اتنے غلام ہوچکے ہیں کے ہمارا سونا جاگنا بھی اس پہ منحصر ہے ہم اپنی عبادات تک کے کیے اس کے غلام ہوچکے ہیں یہاں میں اپنی ہی مثال لیتا ہوں کے مجھے یاد نہیں پڑتا کے آخری بار کب میں بغیر الارم کہ اُٹھ کے فجر کی نماز ادا کی ہاں آپ اس سے اختلاف کر سکتے ہیں کے ایسا نہیں ہے پر اکثریت میں ایسا ہی ہے آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں اور کچھ احباب ضرور کہیں گے کے سب آپ کے جیسے نہیں ہوتے جی بالکل یہ بات حقیقت ہے کے سب میرے جیسے نہیں ہیں لیکن اکثریت کا یہی حال سوال اُٹھاتے وقت ایک بار سوچئے گا ضرور کے کیا ایسا ہے آج ہمارا جشنِ آزادی منانے کا ایک الگ ہی طریقہ ہے ہم موٹرسائیکلوں پر گشت کرنے، پٹاخے پھوڑنے اور طرح طرح کی ویڈیوز بنا کے سوشل میڈیا پہ نشر کرنے کو آزادی کا نام دیتے ہیں حالانکہ یہ غلامی ہے اور غلامی بھی وہ جس پہ آپ کبھی نہیں سوچیں گے اور اس غلامی کی حد اس قدر انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ اب نوجوان لڑکیاں سر نا ڈھانپنے کو بھی آزادی کا نام دیتی ہیں بہت بار سننے کو ملا ہے کہ میری زندگی میں جیسے مرضی گزاروں میں جیسا مرضی لباس پہنوں تو کیا اے ابنِ آدم اور بنتِ حوا تم اپنے اجداد کو بھول چکے؟ ہو کیا یہ وہی راستہ ہے جو انہوں نے دکھایا تھا ؟ کیا یہ وہی نقوش ہیں جو ان کہ چھوڑے ہوئے ہیں ؟ کیا یہ وہی آزادی ہے جس کیلئے لاکھو مسلمانوں نے اپنا خون پیش کیا تھا ؟ 

سائنسدانوں کا ماننا ہے کے ہر کام کے ہونے اور نا ہونے میں ایک خاص منطق(logic reason) ہوتی ہے تو


کیا وجہ ہے کے آج ہم میں وہ مسلم زندہ نہیں ہیں؟ کیا وجہ ہے کے آج ہم میں وہ جذبہ نہیں ہے؟ کیا وجہ ہے کے ہمارے تمام تر جذبے اور جوش صرف سوشل میڈیا تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ آج انصاف اتنا عام نہیں ہے جیسا پہلے تھا؟ کیا وجہ ہے کے ہماری قوم میں اب تک کوئی اور قائد پیدا نہیں ہوسکا؟

تو اگر آپ تھوڑا سا زیادہ نہیں بس تھوڑا بہت تدبر کریں گے تو یقیناً آپ کے دل میں بھی سوال آئے گا کے آزادی کہاں ہے؟ 


اگر کسی کو کوئی بات ناگوار گزری ہو تو اس کے کئے تہہ دل سے معزرت اگر ایسا ہے تو میرا ماننا یہ ہے کے یہ بھی غلامی کی ایک شکل ہے


 ملک حسیب علی

 جناح اسلامیہ کالج


1
104
آسودگی کے خواب جو دیکھے تھے کھو گئے
منزل پہ آ کے پھر سے تھیں قربانیاں وہی