کسی کردار میں خود کو سمانا چاہتا ہوں میں
لگی ہے آگ دامن میں بجھانا چاہتا ہوں میں
میں نے خورشید سے نکلی حرارت ماپ لی لیکن
غمِ دل کی پیمائش کا پیمانہ چاہتا ہوں میں
کبھی ہوں آبلہ پا تو کبھی زنجیر میں جکڑا
ستم اس عشق کہ پھر بھی اُٹھانا چاہتا ہوں میں
خُدا سے روٹھ بیٹھا ہوں میں جاناں جس کی چاہت میں
تجھے تصویر اُس بت کی دکھانا چاہتا ہوں میں
اُمنڈ آتا ہے ہر دن ایک دریا آنکھ سے میری
تبھی تو گریہ زاری کا بہانہ چاہتا ہوں میں
کبھی جو بات کر لو تم دیوانہ جی اٹھے گا یہ
فقط اک عرضی ہی تو ہے سنانا چاہتا ہوں میں
سنا ہے شام سے پہلے ستارے ان سے ملتے ہیں
سو وہ ماہتاب بستی مِیں بُلانا چاہتا ہوں میں

0
36