کاخِ جبینِ یار سے آئی ہے التجا
سوچا نہ کیجئے ہمیں دیکھا نہ کیجئے
عشوہ کریں ہیں سامنے وہ روز روز ہی
اس پر گلہ ہمیں سے یوں آیا نہ کیجئے
راتوں کے خوف میں وہ کہے تھے یہ ایک دن
تارو یوں آسمان پہ چھایا نہ کیجئے

0
19