اس کے نہ آنے کو بیٹھ گئے
رات بنانے کو بیٹھ گئے
ایک شجر ملا دشت میں، ہم
سینے لگانے کو بیٹھ گئے
پچپنا اب بھی ہے باقی کہیں
شور مچانے کو بیٹھ گئے
اس نے بکھیر دیا یوں ہمیں
لوگ ستانے کو بیٹھ گئے
اور حسیب جو کچھ نہ ملا
ہاتھ ملانے کو بیٹھ گئے

0
17