وہ چارہ گر مری دیوانگی نہیں بھرتا
میں ہوں خلا جو ہوا سے کبھی نہیں بھرتا
کسی بھنور کی طرح اردگرد رہتا ہے
مگر یہ دُکھ ہے کہ انگشتری نہیں بھرتا
میں دشت گھوم کے، محفل بھی دیکھ آیا ہوں
یہ جامِ دنیا مری تشنگی نہیں بھرتا
نظر تو کچھ بھی نہیں عقل باندھ دیتا ہوں
میں وہ بھی بھرتا ہوں جو سامری نہیں بھرتا
بھرا ہے کاسہِ دشتِ خیالِ یار بھی دیکھ
جسے بھی بھرتا ہوں میں دائمی نہیں بھرتا
عجیب شخص ہے حُب دار بھی بنا ہے مگر
کسی بھی لفظ میں پر چاشنی نہیں بھرتا
اسے میں پوچھا تھا بھرتے نہیں ہو زخم ہرے؟
پلٹ کے رخ لگا کہنے کہ "جی نہیں بھرتا"

0
2