اس ہم نفس خاطر سہارے رکھ دئے |
سب غم سمندر کہ کنارے رکھ دئے |
اُس نے دیے کی مانگ کی ہم سے فقط |
ہم نے دریچے میں ستارے رکھ دئے |
اُس پارسا پہ آئے نا کوئی حرف |
گُفتگو میں بھی اِشارے رکھ دئے |
اُس کو عجب رنجش تھی میری یاد سے |
منظر مٹایا سب نظارے رکھ دئے |
ہاں ہم کبھی شوقین تھے رنگیں قبا |
اب تو فقط پہنے،اُتارے رکھ دئے |
سوداگروں نے جب لیا وہ نام تو |
ہم نے ترازو میں سیارے رکھ دئے |
تقسیم کرنے میں تھا وہ ماہر بہت |
حصے میرے اُس نے گزارے رکھ دئے |
معلومات