غم ایک عشق بھی ہے بتایا نہ کیجئے |
اس خواب گاہ سے یوں اٹھایا نہ کیجئے |
کاخِ جبینِ یار سے آئی ہے التجا |
یوں دیکھ کر تو حشر اٹھایا نہ کیجئے |
عشوہ کریں ہیں سامنے وہ روز روز ہی |
اس پر گلہ ہمیں سے یوں آیا نہ کیجئے |
راتوں کے خوف میں انہیں کہنا پڑا ہے یہ |
تارو یوں آسمان پہ چھایا نہ کیجئے |
ہوں لاکھ باوفا بھی مگر یار یار ہیں |
دل کے معاملوں میں بلایا نہ کیجئے |
رندانِ مے ہیں دید سے کرتے ہیں کنارہ |
امرت ہمیں یہ آپ پلایا نہ کیجئے |
ورنہ حسیب اگنے لگیں گے یہاں وہاں |
ہم بیج ہیں سو خاک ملایا نہ کیجئے |
معلومات