اسلام آباد کے سیکٹر جی -ایٹ میں بہت سناٹا تھا، لوگوں میں عجیب و غریب سایوں کے کئی دفعہ دیکھے جانے پر شدید خوف و ہراس تھا- کچھ کہتے تھے کہ یہ ان کا وہم تھا، ،مگر کچھ قسم کھاتے تھے کہ انھوں نے بھدی چڑیلوں کو گلیوں میں چلتے دیکھا ہے، ہر رات کو دروازے بجتے تھے، مگر لوگ ڈر کے مارے بستروں میں دُبکے رہتے تھے - ایسے ہی ایک پورشن میں اصغری بھی اپنے بستر میں دبکی تھی، کہ دروازہ دھڑ دھڑ، بہت زور سے بجا ۔ لائٹ تھی نہیں، بیچاری کے دماغ پر چڑیلیں چھانے لگیں، جب کافی دیر تک دروازہ بجتا رہا، تو وہ دل میں آیتیں پڑھنے لگی- پھر ایک خاموشی چھا گئی، اس نے سکون کا سانس لیا ہی تھا، کہ اسے لگا کہ کچن کی طرف کھُلنے والی کھڑکی میں کچھ کھٹکا سا ہوا، اس کی تو مانو بدن سے جان ہی نکل گئی ، پہلے اس نے سوچا کوئی بلی ہو گی، مگر جب ایسے لگنے لگا کہ کوئی کھڑکی کی سلاخوں میں ہاتھ ڈال کر کنڈی کھولنے کی کوشش کر رہا ہے ، تو اصغری تھر تھر کانپنے لگی، اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ ساتھ والے کمرے میں جا کر پولیس کو فون ہی کر سکے - ڈر کے مارے اس کے رونگٹھے کھڑے ہو گۓ،اوپر سے وہ اکیلی تھی، اس نے آیت الکرسی پڑھنے کی کوشش کی مگر وہ اسے یاد ہی نہیں آ
یہ ...آہ ..آہم ...یہ کیا ہے؟ (حیرانی سے ) بھنڈی گوشت ( بڑی بے نیازی سے جواب ملا ) (تیز لہجے میں )کاش تمھارے گھر والوں نے کچھ تو سکھا کر بھیجا ہوتا ، ہر روز ایک ہی بھنڈی گوشت کھا کھا کر میری شکل بھنڈی جیسی ہو گئی ہے مہاراجہ جی، یہ گھر ہے تمھارے ابّے کا ہوٹل نہیں... (ترکی بہ ترکی جواب ) دیکھو ، تمیز سے بات کرو، میرے خاندان کو بیچ میں مت گھسیٹو! یہ بات تم پر بھی لاگو ہوتی ہے ، زیادہ بچے نہ بنو ( شرارتی لہجہ ) بچہ تو میں ہوں ... تم سے پورے تین سو دس دن چھوٹا ہوں،( مزے سے جتایا )افلاطون کہیں کے، صاف صاف کہو کہ ١١ مہینے چھوٹا ہوں جو بھی سمجھو، مگر خدا کے لیے یہ بھنڈی گوشت لے جاؤ ( التجایہ لہجہ ) ٹھیک ہے تو پھر بھوکے مرو ...میں تو جا رہی ہوں ارے تیز گام ارے رکو، تو پھر میں کیا نوش فرماؤں گا؟ ( تنگ آ کر کہا ) اتنی دیر سے یہ جو میرا بھیجہ نوش فرما رہے ہو، اسی سے پیٹ بھرو ...(وہی ہٹ دھرمی ) کتنی ظالم ہو تم؟ جو بھی ہوں، تمہارا مجازی خدا، جان وفا اور پتا نہیں کیا کیا ہوں... ایک کاہل، سست الوجود اور چپکو
وہ سب اس کمرے میں ایک بستر کے اردگرد بیحد اداس چہرہ لئے موجود تھے ۔بستر پر ایک بوڑھا شخص آنکھیں بند کیے ا ُکھڑی سانسیں لے رہا تھا ۔لگتا تھا کہ اس کا آخری وقت آ چکا ہے ۔اچانک اس نے اپنی آنکھیں کھولیں ۔اپنے پورے خاندان کو گردن گھما کر دیکھا ۔بیوی ، بچے ، بیٹے بیٹیاں عزیز و اقارب سب وہیں تھے ۔مگر اس کی آنکھیں کسی کو کھوج رہی تھیں ۔کسی انجان خلا میں دیکھ رہی تھیں ۔اس کی بیوی آگے بڑھی ۔اور آہستہ سے اس کا تکیہ درست کیا ۔گردن کو سہارا دیا ہی تھا کہ بوڑھے کے لب ہلے ۔وہ ہولے سے کچھ بڑ بڑ ا یا ۔آواز نحیف تھی تو کوئی نہیں سمجھا ۔سب آگے کو جھکے ۔کہ شاید آخری وصیت کر نے لگا ہے ۔تبھی بوڑھا ذرا اونچی آواز میں پھر بولا ۔" سگرٹ " سب یہ سن کر حیران ہو گئے ۔" سگرٹ " سب نے بے یقینی کے عالم میں دہرایا ۔" ہاں ۔مجھے ایک سیگرٹ دو ۔میں ایک کش لگانا چاہتا ہوں "سگرٹ پیش کیا گیا ۔وہ کہنیوں کے بل اٹھا ۔سگرٹ سلگایا اور ایک لمبا کش لیا ۔پھر دھواں ہوا میں پھینکا ۔ایک مرغولا سا بنا جو دائرہ کی شکل اختیار کر گیا ۔بوڑھا داد طلب نظروں سے حاضرین کو دیکھنے لگا ۔ماحول کی ٹینشن ختم ہو چکی تھی ۔سب کے چ
اردو ادب تو وڑ گیا غالب اگر زندہ ہو کر مال روڈ لاہور پہ آج کل کی شاعری یا ناول کی ردی نما کتابیں دیکھ لیں تو پڑھتے ساتھ ہی فی الفور پھر مر نے کو تمنا کریں ۔اور دو گز زمین بھی برما میں واگزار کر ا لیں ۔کیوں کہ اردو ادب تو مکمل وڑ گیا ہے ۔تماشا یہ ہے کہ ۔۔۔شاعری : میر ، غالب ، اقبال سے فیض تک کے شاندار دور کے بعد ہم توُ تران چھو چھک قسم کی شاعری پر براجمان ہیں ۔ شعر کہا نہیں جاتا بلکہ تھوکا جاتا ہے ۔شاعری چھچھو ری بن چکی ہے ۔ثبوت چا ہیے ! کسی بھی موجودہ شاعر کو پڑھ لو ۔99% لغو لکھتے ہیں ۔ڈرامہ : آغا حشر کاشمیری اور امتیاز تاج کا سنہری ڈرامہ اب جگتوں اور بوسیدہ پھکڑ بازی بن کر سٹیج ڈراموں میں مجروں کے بیچ گندے بھنگڑے ڈال رہا ہے ۔ رہا ٹی وی کا ڈرامہ تو وہ محض ایک کمرشل پرواز ہے جس میں ادب کا کوئی محل ہی نہیں بنتا ۔افسوس !افسانہ : منٹو ، کرشن چندر ، غلام عبّاس ، عصمت چغتائی کے کمال افسانوں کے بعد موجودہ افسانہ بانجھ ہو چکا ہے ۔مکمل بانجھ جس سے اب کوئی تخلیق ممکن نہیں ۔بلکہ اس زمرے میں یہ کہنا مناسب ہے کہ افسانہ تو گھسی پٹی سو لفظوں کی کہانی میں بدل چکا ہے
جیسے کتاب کا سرورق اندر موجود مواد بارے ککھ نہیں بتاتا، یعنی Dont judge a book by it's cover تو یہی مصیبت کچھ شاعر حضرات کی ہے تو ایک تخلیق کار کو یا ایک اداکار کو اپنے کردار میں ڈوب کر اپنی تخلیق کو با کمال بنانا ہوتا ہے ۔ کردار ختم یا غزل ختم ، تبھی معاملہ بھی ختم ۔ جب آپ کسی عاشق لاحول ولا کا کردار ادا کر رہیں ہیں تو ویسا ہی سوچ کر ویسا ہی لکھیں گے ۔مگر اس خارجی چھاپ کو ہر گز تخلیق کار پر گوند لگا کر جوڑنا نری حماقت ہے ۔ جس سے اجتناب کرنا چاہیے۔زندگی کی خوبصورتی اسے Enjoy کرنے میں مضمر ہے نا کہ کسی کی دم بن کر اس کے پیچھے بھاگنے میں ہے So, Dont be a tail carrier ... شکریہ کاشف علی عبّاس 3 جون 2024
*Jo kahe Ya Rasulallah ﷺ Kehna Shirk hai uskai liye jawab**Jis nai yeh kaha na usse Sab se pahle yehi suwal kiya jai kai tu apni baat pr pakka rahe ga**jab wo kahe ha to Aage suwal kare**Aap ko kab pata chala kai Ya Rasulallah ﷺ kehna Shirk hai**Agar to ab pata chala hai to kuch suwal ka jawab dijiye**Aap kai walid ya Dada Bhi Ya Rasulallah ﷺ kaha karte ho gai**Kahe ga "haan"**To puchiye ga Ya Rasulallah kehnai wala Mushrik hota hai**To aap kai dada mushrik huai?**Fir to aap ki dadi bhi mushrik hui**Mushrik ka nikah nikah nahi Aur usse Jo aulad ho wo Haram kaam se Paida hui Aulad Harami ?**To Aap bataiye Aap kon hai?*
*Mehboob e Ilahi Hazrat Nizamuddin Auliya رحمۃ اللہ علیہ farmate hai :-**🌹مزامیر حرام است🌹* *گانے بجانے کے آلات کااستعمال کرنا حرام ہے۔*(فوائد الفؤاد) *Gane Bajane Kai Aalat (instruments) ka istimal Karna Haram Hai**Aur unkai Khalifa Kitab mai tehreer farmate hai:-**ہمارے مشائخ کرام رضی ﷲ تعالٰی عنہم کاسماع اس مزامیر کے بہتان سے بری ہے وہ صرف قوال کی آواز ہے ان اشعار کے ساتھ جو کمال صنعت (کشف القناع عن اصول السماع)**Hamare Mashaik kiram رضء اللہ تعالیٰ عنہم ka sima is mazameer (instruments) kai bohtan se bari(paak) hai wo sirf qawwal ki aawaz hai in Asha'ar kai sath jo kamal e Sanat**Hasil kalam yeh kai Bohot se Log Ajmer Shareef ki Video kai sath Qawwali aur Music wali video lagate hai jiska sunna Aur sunana Dono Haram Hai**Afsos Is Baat Pr Hota Hai Ilm rakhne wale bhi ya ilm e deen hasil karne wale bhi aisi harkate karte hai😔**Jitnai log sunai gai sab gunahgar aur sab ka milakar gunnah lagane wale pr**Music Mazak Masti mai Ya kabhi kabhar bhi Jaiz nahi*
*🌹Aayat E Rehmat🌹**🌹قُلْ يٰعِبَادِىَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ- اِنَّ اَللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ(سورة الزمر 53)🌹**🌹Aye Mehboob (ﷺ) Aap Farma Dijiye Ae mere wo bando jinhone Apni Jaano pr ziyadati ki Allah ki rehmat se Na umeed na ho beshak Allah sab gunnah bakhsh deta hai beshak wohi bakhshne wala mehrban hai🌹*
آئنسٹائن کا نظریہ اضافیت
(سپیشل تھیوری)
نوٹ: یہ تحریر ان قارئین کے لئے ہے جو سائنس سے کسی حد تک واقف ہیں۔ میری کوشش ہوگی کی تحریر کو بالکل سادہ رکھا جائے اور زیادہ مشکل اصطلاحات کے استعمال سے گریز کیا جائے۔ اپنی تجاویر یا سوالات کے لئے نیچے کمنٹ کر سکتے ہیں۔تاریخقدرت کے قوانین کو سمجھنے کے لئے انسان ہزاروں سالوں سے کوشاں رہا ہے۔ انسان جب باشعور ہوا تو رات کو آسمان پر ٹمٹمانے والی روشنیاں اس کو بہت دلچسپ معلوم ہوئی ہوں گی۔ پورے دن کی مشقت کے بعد جب وہ رات کو کھلے آسمان کے نیچے سستاتا ہوگا تو ضرور سوچتا ہوگا کہ آسمان پر ٹمٹمانے والی ان روشنیوں کی کیا حقیقت ہے۔ کیا ان روشنیوں کا ہماری زندگی پر کوئی اثر ہے یا پھر یہ کوئی اجنبی مخلوق ہے جس کا ہم سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔سورج اور چاند نے انسان کے ذہن پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ ایسے پیدا ہوئے جو سورج کی پوجا کرتے اور اس کو اپنا خدا مانتے۔ زمین پر زندگی اسی سورج کی مرہون ِمنت ہے۔ کہ یہ سورج پودوں کو توانائی بخشتا ہے جس سے پودے خوراک بنانے کے قابل ہوتے ہیں۔ اور یہ خوراک باقی جانور زندہ رہنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ سورج کی افادیت صرف یہاں ت