پچھلی قسط: آئن سٹائن کا نظریۂ اضافیت - مشہور ترین ناکام تجربہ


آئنسٹائن کا نظریۂ اضافیت  (سپیشل ریلیٹویٹی تھیوری) حرکت کا نظریہ ہے۔ سپیشل ریلیٹویٹی تھیوری، جو کہ 1905 میں پیش کی گئی، کا تعلق ہموار حرکت (uniform motion) سے ہے۔ اس کا اطلاق اسراع (تعریف: کسی حرکت کا تیز تر یا کم تر ہو جانا) یا acceleration پر نہیں ہوتا۔ اس لئے اس کو سپیشل تھیوری کہتے ہیں۔ 1916 میں آئنسٹائن نے ایک اور مکمل تھیوری پیش کی جس کو جنرل تھیوری آف ریلیٹویٹی کہا جاتا ہے۔ اس تھیوری میں اسراع کا بھی خیال رکھا گیا۔ ہم یہاں پر صرف سپیشل تھیوری پر بحث کریں گے۔

اگر آپ کسی ٹرین میں سفر کر رہے ہوں اور وہ ٹرین ایک غیر متغیر رفتار  (fixed velocity) سے سفر کر رہی ہو۔ فرض کریں ٹرین کی رفتار 60 کلومیٹر فی گھنٹا ہے جس کو تصویر میں v سے ظاہر کیا گیا ہے۔ اور آپ کے ہاتھ میں ایک گیند ہے جس کو آپ دائیں طرف 20 کلومیٹر کی رفتار سے پھینکیں، تصویر میں اس رفتار کو u سے ظاہر کیا گیا ہے۔ باہر سے مشاہدہ کرنے والے کے لئے گیند کی کل رفتار u+v کلومیٹر فی گھنٹا ہو گی۔ یا اس صورت میں 60+20 یعنی 80 کلومیٹر فی گھنٹا۔ لیکن آپ کے لئے گیند کی رفتار 20 کلومیٹر فی گھنٹا ہو گی چونکہ آپ ٹرین کے ڈبے میں سفر کر رہے ہیں۔


اگر ٹرین کی کوئی کھڑکیاں نہ ہوں جن سے باہر دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ ہم چل رہے ہیں یا رکے ہوئے ہیں تو اس ٹرین میں کسی بھی قسم کے تجربات کر کے یہ معلوم نہیں کیا جا سکتا کہ ہم رکے ہوئے ہیں یا چل رہے ہیں۔ لیکن اگر ٹرین اپنی رفتار آہستہ یا تیز کرے یعنی اسراع (acceleration) ہو تو ہمیں بخوبی معلوم ہو جائے گا کہ رفتار میں فرق آیا ہے۔ ہمارے اردگرد پڑی ہوئی چیزیں ادھر ادھر گرنے لگیں گی جن سے ہم اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ٹرین اب ہموار حرکت نہیں کر رہی بلکہ رفتار میں فرق آ رہا ہے۔

پہلے ہم نے نیوٹن اور میگزویل کے قوانین کا ذکر کیا تھا۔ اور یہ بھی بتایا تھا کہ ان کا تعلق حرکت سے ہے۔ اب ہم ٹرین میں بیٹھ کر جو تجربات کر سکتے ہیں ان کا تعلق ان دو قوانین سے ہو گا۔ ایک مثال میں نے گیندپھینکنے کی دی جس پر نیوٹن کے قوانین لاگو ہوتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ بال کس طرح حرکت کرے گی۔ ہم یہاں پر یہ فرض کرتے ہیں کہ یہ ٹرین خلا میں سفر کر رہی ہے اور زمین یا کسی اور جسم کی کشش ثقل سے بہت دور ہے۔ اس معاملے میں پھینکی گئی گیند دائیں طرف سیدھی لکیر میں سفر کرے گی (نیوٹن کے پہلے قانون کے مطابق)۔ اسی طرح ہم مقناطیس پر بھی تجربات کر سکتے ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں لوہے کے ذرات کی حرکت میگزویل کے اصولوں کے مطابق ہو گی۔ اور اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ یہ تجربہ ہم کسی رکی ہوئی ٹرین میں کریں یا پھر ہموار حرکت کرتی ہوئی ٹرین میں!

یہ نظریہ سب سے پہلے گیلیلیو (Galileo) نے پیش کیا تھا۔ اس کے مطابق مطلق حرکت (Absolute motion) کا وجود نہیں ہے۔ حرکت کی وضاحت صرف مشاہدہ کرنے والے پر منحصر ہے۔

آئنسٹائن کی تھیوری کا پہلا مسلمہ اصول( First Postulate) ہے: فزکس کے قوانین کا اطلاق تمام "انرشیل فریمز" پر ہوتا ہے۔ (The laws of physics apply in all inertial reference frames)

"انرشیل فریم" کے لئے کوئی اردو کا لفظ سجھائی نہیں دیا (وہ دوست جنہوں نے اردو میں سائنس پڑھی ہو کوئی مشورہ دے سکتے ہیں) تو میں اس کی وضاحت کرتا چلوں: اوپر ٹرین کی بات ہو رہی تھی، تو یہ ٹرین اگر ہموار حرکت (uniform motion) کر رہی ہو اور اس کی حرکت میں کسی بھی سمت میں کوئی اسراع نہ ہو تو اس کو "انرشیل فریم" کہیں گے۔ زمین پر چلنے والی ٹرین کو "انرشیل فریم" نہیں کہہ سکتے چاہے وہ ہموار حرکت ہی کیوں نہ کر رہی ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پر کشش ثقل اثر کر رہی ہو گی اور یہ کشش مختلف جگہوں پر مختلف ہوتی ہے۔

مائکلسن-مورلے کے تجربے کی ناکامی کے بعد سائنسدان مخمصے میں تھے کہ ایتھر کی وضاحت کیسے کی جائے۔ آئنسٹائن کا دوسرا مسلمہ اصول اسی تجربے کا نتیجہ ہے۔ آئنسٹائن کے مطابق ایتھر کی رفتار اس لئے معلوم نہیں ہو سکی کیونکہ ایتھر کا وجود ہی نہیں ہے اور روشنی خلا میں بغیر کسی وسیلے کے سفر کرتی ہے۔

آئنسٹائن کی تھیوری کا دوسرا مسلمہ اصول( Second Postulate) ہے: روشنی کی رفتار تمام انرشیل ابزرورز کے لئے برابر ہے۔ (The speed of light is the same for all inertial observers.)

انرشیل آبزرور: انرشیل فریم میں مشاہدہ کرنے والا۔ یعنی ہماری دی گئی مثال والی ٹرین میں بیٹھا آدمی جب وہ ٹرین "انرشیل فریم" کی تعریف پر پورا اترتی ہو۔

اس اصول کے مطابق ہر جگہ پر روشنی کی رفتار برابر ہو گی۔ یعنی اوپر دی گئی مثال میں اگر ہم ٹرین میں دائیں طرف بال پھینکنے کی بجائے ٹارچ لگائیں (روشنی کی شعاع ڈالیں) تو ٹرین میں مشاہدہ کرنے والے کے لئے اس کی رفتار 'c' ہو گی۔ گیلیلیو کے اصول کے مطابق باہر بیٹھے ہوئے مشاہدہ کرنے والے کے لئے یہ رفتار c+v ہونی چاہیے یعنی c سے 60 کلومیٹر فی گھنٹا زیادہ۔ لیکن مائکلسن مورلے کے تجربے سے ہم یہ دیکھ چکے ہیں یہ رفتار بھی 'c' ہی ہو گی۔ یعنی روشنی کی رفتار تمام مشاہدہ کرنے والوں کے لئے ایک جیسی ہوگی چاہے مشاہدہ کرنے والے رکے ہوئے ہوں یا چل رہے ہوں۔

Relativity of Simultaneity (ایک ساتھ ہو نے والے واقعات کی اضافیت)

اس تھیوری کا نام آئنسٹائن نے رکھا: ”ایک ساتھ ہو نے والے واقعات کی اضافیت“ یا Relativity of Simultaneity۔ Simultaneity کا لفظ Simultaneous سے مشتق ہے۔ Simultaneous یا ایک ساتھ وقوع پزیر ہونے والے واقعات اس بات پر منحصر ہیں کہ ان کو جانچنے والا (observer) کون ہے۔



( تصویر نمبر 1)

اوپر تصویر میں ایک ٹرین (ریل گاڑی) کا ڈبہ دکھایا گیا ہے۔ اس میں آگے اور پیچھے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ٹرین کے بالکل بیچ میں ایک چراغ رکھا گیا ہے۔ جونہی چراغ روشن ہو گا، روشنی کی کرنیں ہر طرف ایک ساتھ (Simultaneously) پھیلیں گیں۔ ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ یہ چراغ بالکل درمیان میں رکھا گیا ہے۔ تو جب روشنی کی پہلی کرنیں اس میں نکلیں گی، تو چونکہ روشنی کی رفتار متعین ہے اور غیر متغیر ہے، تو روشنی کی دونوں شعائیں، (جن کو دو تیر کے نشانات سے ظاہر کیا گیا ہے) ایک ہی وقت پر آگلی اور پچھلی دیواروں سے ٹکرائیں گی۔ کیا اس سے فرق پڑے گا کہ یہ ٹرین رکی ہوئی ہے یا چل رہی ہے؟ جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ٹرین رکی ہے یا چل رہی ہے جب تک کہ مشاہدہ کرنے والا ٹرین کے اندر موجود ہو۔

لیکن اگر مشاہدہ کرنے والا ٹرین سے باہر رکا ہوا ہو اور ٹرین ایک مخصوص رفتار سے سفر کر رہی ہو تو اس کا مشاہدہ ٹرین کے اندر والے شخص سے یکسر مختلف ہو گا۔ اس کے لئے درج زیل تصویر دیکھیں:


( تصویر نمبر 2)

چونکہ ٹرین آگے کی طرف چل رہی ہے تو جتنی دیر میں روشنی کی کرن پچھلی دیوار تک پہنچتی ہے۔ اتنی دیر میں اگلی دیوار کچھ اور آگے جا چکی ہو گی اور اسی طرح پچھلی دیوار بھی آگلے آ چکی ہو گی۔ ٹرین کی نئی پوزیشن کو سبز ڈبے سے ظاہر کیا گیا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ چراغ کا فاصلہ پچھلی دیوار سے کم ہو گیا ہے جبکہ اس کا فاصلہ اگلی دیوار سے بڑھ گیا ہے۔ یعنی روشنی پہلے پچھلی دیوار پر پڑے گی اور بعد میں اگلی دیوار پر۔

آپ دیکھ چکے ہیں کہ ایسے واقعات (روشنی کا اگلی اور پچھلی دیوار پر پڑنا) جو ٹرین میں سوار مسافر کے لئے ایک ہی وقت میں رونما ہوئے وہ ٹرین سے باہر بیٹھے شخص کے لئے مختلف اوقات میں رونما ہوتے ہیں۔ تو اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی بھی دو واقعات جو رونما ہوتے ہیں ان کو ہم simultaneous نہیں کہہ سکتے کہ یہ مشاہدہ کرنے والے پر منحصر ہے۔ ایک شخص کے لئے simultaneous واقعات دوسرے کے لئے دو محتلف اوقات میں رونما ہونے والے واقعات ہو سکتے ہیں۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟

یہ سب آئنسٹائن کے دوسرے مسلمہ اصول کا نتیجہ ہے۔ یہ یاد رہے کہ آئنسٹائن نے یہ اصول مشاہدات کی بنا پر وضع کیا تھا جن میں مائکلسن مورلے کے تجربے کا اوپر ذکر آ چکا ہے۔ اگر تو روشنی کی رفتار تمام مشاہدین کے لئے مختلف ہوتی تب یہ دونوں واقعات دونوں کے لئے ایک ہی وقت میں رونما ہوتے۔ لیکن قدرت نے روشنی کی رفتار تمام مشاہدین کے لئے برابر رکھی ہے تو simultaneity بھی اضافی ہو گئی ہے۔

ان اصولوں کے کچھ اور بھی خارق العادت قسم کے نتائج نکلتے ہیں جنہوں نے لوگوں کو کافی مخصے میں ڈالا۔ وقت کے گزرنے کی رفتار کو عام طور پر سب کے لئے یکساں سمجھا جاتا تھا لیکن اس تھیوری نے یہ تصور ختم کر دیا۔ ہم اگلی قسط میں اس کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔




0
127