آئنسٹائن کا نظریہ اضافیت

​ (سپیشل تھیوری)

​ نوٹ: یہ تحریر ان قارئین کے لئے ہے جو سائنس سے کسی حد تک واقف ہیں۔ میری کوشش ہوگی کی تحریر کو بالکل سادہ رکھا جائے اور زیادہ مشکل اصطلاحات کے استعمال سے گریز کیا جائے۔ اپنی تجاویر یا سوالات کے لئے نیچے کمنٹ کر سکتے ہیں۔​


تاریخ​

قدرت کے قوانین کو سمجھنے کے لئے انسان ہزاروں سالوں سے کوشاں رہا ہے۔ انسان جب باشعور ہوا تو رات کو آسمان پر ٹمٹمانے والی روشنیاں اس کو بہت دلچسپ معلوم ہوئی ہوں گی۔ پورے دن کی مشقت کے بعد جب وہ رات کو کھلے آسمان کے نیچے سستاتا ہوگا تو ضرور سوچتا ہوگا کہ آسمان پر ٹمٹمانے والی ان روشنیوں کی کیا حقیقت ہے۔ کیا ان روشنیوں کا ہماری زندگی پر کوئی اثر ہے یا پھر یہ کوئی اجنبی مخلوق ہے جس کا ہم سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔​

سورج اور چاند نے انسان کے ذہن پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ ایسے پیدا ہوئے جو سورج کی پوجا کرتے اور اس کو اپنا خدا مانتے۔ زمین پر زندگی اسی سورج کی مرہون ِمنت ہے۔ کہ یہ سورج پودوں کو توانائی بخشتا ہے جس سے پودے خوراک بنانے کے قابل ہوتے ہیں۔ اور یہ خوراک باقی جانور زندہ رہنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ سورج کی افادیت صرف یہاں تک ہی محدود نہیں، اس کے مشرق سے ابھرنے اور مغرب میں ڈوبنے سے دن اور رات کا تعین ہوتا ہے۔دن کے وقت سورج کا آسمان پر کسی منزل میں ہونا پہر کا تعین کرتا ہے اور کچھ آلات کے استعمال سے سورج کے سائے سے گھنٹوں کا تعین ہوتا ہے۔ یعنی کہ اس سے وقت کا تعین ہوتا ہے۔ اس وقت کے انسان کو اس بات کی خبر نہیں تھی کی دن و رات اصل میں زمین کا اپنے گرد چکر لگانے سے وجود میں آتے ہیں۔ وہ زمین کو ہی پوری کائنات کا مرکز سمجھتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ہر ایک چیز زمین کے گرد چکر لگاتی ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو کہ سورج کے پجاری تھے، وہ لوگ سورج کو کائنات کا مرکز گردانتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ وہ بالکل ٹھیک سمجھتے تھے لیکن غلط وجوہات کی بنا پر۔

وقت کے بہتر تعین کے لئے انسان نے کچھ آلات ایجاد کئے۔ بحری جہازوں میں سفر کے لئے وقت کا اچھے طریقے سے تعین بہت ضروری تھا۔ اس کے بغیر سمندر میں کھو جانے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے تھے۔ اس کے لئے ریت گھڑی (آور گلاس) ایجاد کی گئی۔ جس سے ایک چوتھائی گھنٹے تک کے وقت کا بخوبی تعین کیا جا سکتا تھا۔ اطالوی سائنسدان گیلیلیو (وفات:1642) نے وقت کے بہتر تعین کے لئے کچھ تجربات میں وقت معلوم کرنے کے لئے اپنی نبض کا سہارا لیا۔ لیکن 1656 تک صحیح طور پر وقت کا تعین تب ممکن ہوا جب ایک ڈچ سائنسدان ہیگنز نے جدید گھڑیال ایجاد کی۔ہیگنز نے دیکھا کہ اگر کسی دھاگے سےایک وزنی چیز (مثلاًلوہے کا گولہ)کو لٹکایا جائے اور اس گولے کو دائیں ہا بائیں طرف دھاکا دیا جائے تو ایک طرف سے دوسری طرف کا فاصلہ طے کرنے میں ایک مخصوص وقت لگتا ہے۔ اس وقت کا تعلق صرف اور صرف دھاگے کی لمبائی سے ہوتا ہے۔ اس مخصوص وقت کا تعلق اس بات سے نہیں کہ ہم کتنی قوت لگا کر اس گولے کو حرکت میں لائے تھے۔ یا پھر گولے کا وزن کتنا تھا۔یعنی اب ایسی چیز ایجاد ہو گئی تھی جس سے وقت کا بہت باقاعدگی سے تعین کیا جا سکتا تھا۔​

​اسی طرح سے سیاروں کے سورج کے گرد مداد پرجرمن سائنسدان کیپلر نے 1609 میں تین قوانین وضع کئے جن کے مطابق کوئی بھی سیارہ سورج کے گرد بیضوی شکل کے مدار میں سفر کرتا ہے۔ انگریز سائسندان نیوٹن (وفات:1726) نے اپنی کتاب (پرنسیپیا میتھیمیٹیکا) میں کچھ قوانین وضع کئے جن کا تعلق خلا اور زمین میں اجسام کی حرکت سے تھا۔ نیوٹن کے مطابق اگر کسی جسم پر قوت لگائی جائے تو وہ سیدھی لکیر میں ہمیشہ کے لئے سفر کرے گا۔ اور جس تناسب سے قوت لگائی جائے اسی تناسب سے اس جسم کی رفتار میں اضافہ ہوگا۔ یعنی اگر خلا میں ہم کسی فٹبال کو زور سے لات ماریں تواس کی رفتار اس فٹبال کی نسبت زیادہ ہوگی جس کو آہستہ سے لات ماری جائے۔

اسی طرح اگر کوئی چیز اوپر سے نیچے زمین پر گرائی جائے تو اس کے رفتار میں اضافہ بھی پچھلی مثال کے مطابق ہوگا۔ لیکن یہاں پر قوت کا ماخذ کشش ثقل ہے۔ یہ وہ قوت ہے جو ہر ایک جسم دوسرے جسم پر لگاتا ہے اور اپنی طرف کھیچتا ہے۔ اس کو نیوٹن نے دریافت کیا(یہاں سیب والی کہانی کا محل بنتا ہے لیکن وہ کہانی سب کو معلوم ہے)۔ ہم زمین پر اسی لئے جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور اس سے گرتے نہیں ہیں کہ زمین ہمیں اپنی طرف کھینچتی ہے(یہ قوت ہمارے وزن کے برابر ہے)۔ ہم بھی زمین کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اتنی ہی قوت سے جتنی قوت سے زمین ہمیں کھینچتی ہے۔ اگر ہم زمین سے بہت دور خلا میں چلے جائیں تو ہم بے وزن ہو جائیں اور خلا میں اڑنے لگیں۔​

قریباً200 سال تک نیوٹن کے نظریے کا کوئی رقیب سامنے نہیں آیا اور اس کو من و عن تسلیم کیا گیا۔اس کو تسلیم کرنا قدرتی بات تھی کیونکہ یہ نظریہ بہت اچھے طریقے سے سیاروں کے سورج کے گرد مداروں کا تعین کرتا تھا۔ اور زمین پر کسی جسم کی رفتار اور راستے کو متعین کرتا تھا۔ یہ تو ہے کشش ثقل جس سے انسان کو ہر پل واسطہ پڑتا ہے۔لیکن ایک اور قوت مقناطیسیت بھی ہے، جو بہت پہلے دریافت ہو چکی تھی لیکن انسانوں کے لئے بہت عجیب و غریب تھی۔ اور بہت زیادہ زور دار بھی! اس کے زور کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ہم کسی مقناطیس کو کسی لوہے کے چھوٹے ٹکڑے کے قریب لے جائیں تومقناطیس سے فوراًچپک جاتا ہے۔ ایک طرف تو اس لوہے کے ٹکڑے کا وزن ہے(یہ وہ قوت ہے جو زمین اس لوہے کے ٹکڑے پر لگا رہی ہے۔)  لیکن دوسری طرف ایک چھوٹا سا مقناطیس (زمین کے مقابلے میں لاکھوں گنا چھوٹا) قوت لگا رہا ہے۔ ہم بآسانی کہہ سکتے ہیں کہ یہاں جیت مقناطیسیت کی ہی ہوگی۔مقناطیسیت بہت زوردار قوت ہے لیکن اس کا اثر صرف ایک محدود رقبے میں ہوتا ہے۔ لیکن سیاروں اور ستاروں کو ایک دوسرے سے جوڑنے والی قوت کشش ثقل ہی ہے۔​

پرانے زمانے کے لوگ ایسی مچھلیوں سے واقف تھے جن کو اگر چھوا جاتا تو وہ بجلی کا جھٹکا لگاتی تھیں۔ مصر کے لوگ قریباً 4500 سال پہلے ایسی مچھلیوں کو دریائے نیل کی مچھلیوں کا محافظ سمجھتے تھے۔ بجلی کو 1600 عیسوی تک سمجھنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی گئی۔ 1600 کے بعد اگلے 300 سال تک سائنسدانوں نے برقی قوت اور مقناطیسی قوت کو کافی حد تک سمجھ لیا تھا۔ انیسویں صدی کے اواخر میں سکاٹش سائنسدان میگزویل (Maxwell) نے برقی قوت اور مقناطیسی قوت کی وضاحت کرنے کے لئے ایک تھیوری پیش کی۔ اس تھیوری میں اس سے پہلے کئے گئے فیریڈے، گاوس اور ایمپیر (Faraday, Gauss and Ampere) کے کام کو یکجا کیا اور اس میں کچھ اضافہ کیا گیا۔ اس تھیوری کی سب سے اہم پیشن گوئی یہ تھی کہ کائنات میں ایک خاص قسم کی "برقی-مقناطیسی" شعائیں (Electromagnetic waves) موجود ہیں جو تاحال دریافت نہیں ہوئیں تھیں (مثلاً ریڈیو، ٹی وی، موبائل وغیرہ کی شعائیں، ایکسرے شعائیں وغیرہ) اور ان کی رفتار "روشنی کی رفتار" جتنی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ روشنی بھی برقی-مقناطیسی شعاوں کی ایک قسم ہے۔ ایک اور اہم بات یہ تھی حرکت کرتا ہوا مقناطیس کسی بھی بجلی کی تار (Conductor) میں برقی قوت کو جنم دیتا ہے اور حرکت کرتے ہوئے بجلی کے ذرات (بعد میں ان کو الیکٹران کہا گیا) مقناطیسیت کو جنم دیتے ہیں۔ آج بھی بجلی پیدا کرنے کا یہی اصول ہے۔ اونچائی سے بہنے والا پانی آبشار کی صورت میں ایک بڑے پنکھے (ٹربائین) کو چلاتا ہے۔ اس پنکھے کیساتھ ایک بہت بڑا مقناطیس جڑا ہوتا ہے۔ اور مقناطیس کی یہ حرکت قریب ہی لگے بجلی کے تاروں میں کرنٹ پیدا کرتی ہے۔ اور یہی بجلی ہمارے گھروں میں روشنی جلانے (یا لوڈشیڈنگ :)) کے کام آتی ہے۔

ابھی تک ہم نے نیوٹن اور میگزویل کے قوانین کا ذکر کیا ہے۔ نیوٹن کے قوانین جسمانی یا میکانیکی حرکت کی وضاحت کرتے ہیں اور میگزویل کے قوانین برقی-مقناطیسی حرکت کی وضاحت کرتے ہیں۔ 1900 کے اوائل تک سائنسدانوں کو دو قسم کی قوتوں کا معلوم تھا:" کشش ثقل" اور "برقی-مقناطیسی قوت"۔ میگزویل سے پہلے برقی قوت اور مقناطیسی قوت کو الگ سمجھا جاتا تھا لیکن میگزویل نے ثابت کیا کہ یہ دراصل ایک ہی قوت ہے: "برقی-مقناطیسی"، کیونکہ ایک قوت میں تبدیلی سے دوسری قوت جنم لیتی ہے اور دوسری قوت میں تبدیلی سے پہلی۔

انیسوی صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے پہلے چند سالوں میں سائنسدانوں کو ایک بڑا مسئلہ یہ درپیش تھا کہ زمین پر جتنی بھی لہریں (آواز یا پانی کی لہریں) ان کو معلوم تھیں ان سب کے لئے کسی نا کسی وسیلے (Medium) کی ضرورت ہوتی تھی۔ یعنی آواز کی لہروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے لئے ہوا کے وسیلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور پانی کی لہروں کا وسیلہ پانی ہوتا ہے۔ اسی طرح روشنی کو بھی چونکہ لہر سمجھا جاتا تھا تو خیال یہ تھا کہ اس کے لئے بھی کسی نہ کسی وسیلے کا ہونا ضروری ہے۔ یونانی فلسفی ارسطو نے بنیادی عناصر آگ، مٹی، ہوا اور پانی کے علاوہ ایک پانچویں عنصر کا بھی ذکر کیا تھا جس کو "ایتھر" (Aether) کہا گیا تھا۔ ایتھر کے معنی "پاک صاف ہوا" یا "کھلی فضا" کے ہیں۔ ارسطو کے مطابق ایتھر پورے آسمان میں ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔ سائنسدانوں کو بھی کسی ایسے ہی وسیلے کی تلاش تھی جو سورج یا ستاروں سے روشنی کے زمین تک کے سفر کی وضاحت کر سکے۔ اگر ایتھر پورے آسمان میں پھیلا ہوا ہے تو زمین بھی ظاہراً اسی ایتھر میں سورج کے گرد چکر لگاتی ہو گی۔ ایتھر میں زمین کی رفتار معلوم کرنے کے لئے دو سائنسدانوں مائکلسن اور مورلے نے ایک تجربہ وضع کیا۔


اگلی قسط: مشہور ترین ناکام تجربہ​



0
91