Circle Image

Sanwal mazari

@77447744

سہیلیوں کو جلاتی رہتی ہے
جس طرح بن سنور کے آتی ہے
ہم بھی چپ چاپ دیکھتے ہیں اُسے
وہ بھی نظریں چرا کے جاتی ہے
بند کمروں سے سب نکل آئے
اب وہ چھت پر ٹہلنے آتی ہے

0
24
نظم: لمس کی تمثیل
وہ لمحہ
جب اس کی انگلیاں
میری ریڑھ کی ہڈی پر
آخری دعا کی مانند پھسلتی ہیں
تو میں

0
33
آنکھ سے اُس کا نظارہ تو نہیں ہو سکتا
ایک سورج ہے ستارہ تو نہیں ہو سکتا
چاہتا ہوں کہ پرندوں سے مِری بات رہے
صرف پیڑوں سے گزارا تو نہیں ہو سکتا
یہ غنیمت ہے میاں اُس نے ہمیں چاہا ہے
ہر حسیں شخص ہمارا تو نہیں ہو سکتا

81
دشت میں مجھ پہ اتنی وحشت ہے
قیس جیسی ہی میری حالت ہے
میں کسی یاد میں ہوں یوں گُم صُم
سانس لینا بھی مجھ کو دقت ہے
زندگی ہے اسی کی چھاؤں میں
مجھ کو اک پیڑ سے محبت ہے

0
1
63
سکون کی تلاش میں جو لوگ تھے
وہ شہر جا کے اور بھی بگڑ گئے
بُرے دنوں میں کوئی بھی نہ ساتھ تھا
خدا کا شکر ہے کہ دن گزر گئے
سانول مزاری

0
51
شہر کا شہر خریدار نہیں ہو سکتا
ہر کوئی اُس کا طلب گار نہیں ہو سکتا
تیرا بیمار ترے ہجر میں مر جائے گا
جیتے جی درد سے دو چار نہیں ہو سکتا
میں نے دیکھا ہے تجھے دشمنوں کی محفل میں
تُو کبھی میرا وفا دار نہیں ہو سکتا

0
54
نظم: ادھوری نظم
از، سانول مزاری
ایک عورت تھی —
جو دن کے وقت خواب دیکھتی تھی
اور رات کو آئینے کے پیچھے چھپ جاتی تھی۔
اُس کے بالوں میں پرندے بسے تھے

124
نظم!کچھ دن تنہا رہو
کچھ دن تنہا رہو
فون بند کرو،
پھر خود سے پوچھو کہ
خاموشی کا رنگ کیسا ہے؟
دوڑتے رہنے کی شرط اٹھاؤ

49
اپنے کوچے سے وہ جب زلف سنوارے نکلے
اُس کی گلیوں میں کئی درد کے مارے نکلے
چاند نکلا تو ترے ہجر کا منظر چمکا
جیسے ماضی کے دریچوں سے نظارے نکلے
تری آواز کی خوشبو میں بسا ہے موسم
گُل کِھلے ،باد چلی ، رنگ تمھارے نکلے

45
چلتا رہتا خاک اڑایا کرتا تھا
وحشت سے جب دشت میں آیا کرتا تھا
ڈوبتا جاتا تھا میں ایک سمندر میں
جب میں اس سے آنکھ ملایا کرتا تھا
پیڑ اسی پر پھول گرایا کرتے تھے
جب وہ باغ میں سیر کو جایا کرتا تھا

0
150
نہ ٹوٹے گا کبھی رشتہ ہمارا
بہت مضبوط ہے دھاگہ ہمارا
بچایا ہم نے دل کو ٹوٹنے سے
مگر کمزور تھا کاسہ ہمارا
ہماری بات پر وہ ہنس پڑا ہے
چھپا تھا آنکھ میں دریا ہمارا

57