نظم: لمس کی تمثیل
وہ لمحہ
جب اس کی انگلیاں
میری ریڑھ کی ہڈی پر
آخری دعا کی مانند پھسلتی ہیں
تو میں
خدا سے زیادہ
اس کے وجود پر ایمان لے آتا ہوں
وہ ہنسی
جو قربت کے بعد
میرے سینے پر گرتی ہے
اذانِ عشق کی طرح
روح کو بیدار کر دیتی ہے
اس کی خوشبو
کسی تاریخی کتب خانے کی طرح
ہر ورق پر کوئی راز رکھتی ہے
اور میں
ہر بار نیا صفحہ کھولتا ہوں
اور حیرت سے اسے پڑھتا ہوں
یہ عشق نہیں
لمس کی تمثیل ہے
جس کا مطلب
کسی لغت میں نہیں ملتا
صرف اس کے بدن پر
ہونٹ رکھ کر
سمجھا جا سکتا ہے
سانول مزاری

0
33