نظم: ادھوری نظم
از، سانول مزاری
ایک عورت تھی —
جو دن کے وقت خواب دیکھتی تھی
اور رات کو آئینے کے پیچھے چھپ جاتی تھی۔
اُس کے بالوں میں پرندے بسے تھے
اور ماتھے پر ایک بند دروازہ تھا،
جس پر "واپسی" الٹا لکھا تھا۔
وہ ہنستی تھی تو درخت مرجھا جاتے تھے،
رُوتی تھی تو کتابیں بھیگ جاتی تھیں
اور جب خاموش ہوتی تھی
تو شاعر پاگل ہو جاتے تھے۔
ایک دن
کسی شاعر نے اُسے دیکھ کر نظم لکھی —
مگر قلم سے خون نہیں،
چھوٹے چھوٹے کیڑے نکلے
جو نظم کے حاشیے چاٹنے لگے۔
وہ عورت —
جسے بارش سے الرجی تھی
اور ریشمی کپڑوں سے وحشت —
ہر اُس نظم میں زندہ تھی
جسے کوئی مکمل نہیں کر پایا۔
اس کے قدموں میں چاندنی گھِسٹتی تھی
مگر وہ سورج کی پرچھائیاں چننے نکلی تھی
اپنے ناخنوں سے دیوار پر لفظ کھودتی
اور پھر اُنہیں چاٹ جاتی تھی
جیسے بھوک اُس کے اندر لفظوں کی ہو۔
کچھ لوگ کہتے تھے
وہ عورت نہیں،
ادھورا افسانہ ہے
جو ہر رات کسی نئی کتاب میں جنم لیتا ہے
اور فجر سے پہلے مر جاتا ہے۔
شاعر اُس سے ڈرتے تھے
کیونکہ وہ اُن کی نظموں کے اندر
خود کو دفن کر کے،
قافیہ بدل دیتی تھی۔
اُس کی ہنسی میں ہجرت تھی،
اُس کی آنکھ میں دروازہ
اور اُس کی چھاؤں میں
محبت کی پرانی لاشیں سوئی ہوئی تھیں۔
کہتے ہیں —
ایک دن وہ آخری سطر بن کر
ایک بند کتاب میں قید ہو گئی
اور اُس کے بعد
کوئی بھی نظم مکمل نہ لکھی جا سکی۔
سانول مزاری

125