اپنے کوچے سے وہ جب زلف سنوارے نکلے
اُس کی گلیوں میں کئی درد کے مارے نکلے
چاند نکلا تو ترے ہجر کا منظر چمکا
جیسے ماضی کے دریچوں سے نظارے نکلے
تری آواز کی خوشبو میں بسا ہے موسم
گُل کِھلے ،باد چلی ، رنگ تمھارے نکلے
سانول اب چپ ہی رہو نیند ستمگر نکلی
ہم تو سمجھے تھے کہ خوابوں کے ستارے نکلے
سانول مزاری

45