اپنے کوچے سے وہ جب زلف سنوارے نکلے |
اُس کی گلیوں میں کئی درد کے مارے نکلے |
چاند نکلا تو ترے ہجر کا منظر چمکا |
جیسے ماضی کے دریچوں سے نظارے نکلے |
تری آواز کی خوشبو میں بسا ہے موسم |
گُل کِھلے ،باد چلی ، رنگ تمھارے نکلے |
سانول اب چپ ہی رہو نیند ستمگر نکلی |
ہم تو سمجھے تھے کہ خوابوں کے ستارے نکلے |
سانول مزاری |
معلومات